قاہرہ ۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ کی ایک اعلیٰ عدالت نے سابق صدر حسنی مبارک کے دونوں صاحبزادوں علاء اور جمال مبارک کی رہائی کا حکم دیا ہے۔
لیکن عدالتی ذرائع کے مطابق ان دونوں کو اس حکم کے باوجود رہائی نہیں ملے گی جب تک کہ پراسیکیوٹرز ان کے خلاف دوسرے کیسوں کا جائزہ نہیں لے لیتے۔ان کے وکیل فریدالدیب کا کہنا ہے کہ انھیں رہائی مل سکتی ہے کیونکہ ان کے خلاف کسی اور کیس کا اب ٹرائل نہیں ہورہا ہے۔
مبارک برادرز کو اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤکے ایک الگ کیس کا سامنا ہے۔اس کیس کی ابھی سماعت مکمل نہیں ہوئی ہے لیکن جون 2013ء میں عدالت نے انھیں اس میں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
قاہرہ کی اعلیٰ عدالت نے گذشتہ سال نومبر میں ان کے خلاف بدعنوانی کے الزام
میں قائم مقدمہ بھی ختم کردیا تھا اور اس وقت ان کے خلاف کسی عدالت میں ایسا کوئی کیس زیر سماعت نہیں ہے جو ان کی رہائی میں حائل ہوسکے۔
قاہرہ کی فوجداری عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ دونوں بھائی پہلے ہی مقدمے کی سماعت سے قبل زیادہ سے زیادہ اٹھارہ ماہ کا عرصہ حراست میں گزار چکے ہیں۔اس لیے انھیں ان کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کی صورت میں بھی زیرحراست نہیں رکھا جاسکتا ہے۔
مصر کی ایک اعلیٰ عدالت نے اسی ماہ حسنی مبارک اور ان کے دونوں بیٹوں کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی سماعت کا دوبارہ حکم دیا تھا اور انھیں سنائی گئی قید کی سزا کالعدم قرار دے دی تھی۔
قاہرہ کی ایک ماتحت عدالت نے معزول صدر کو گذشتہ سال مئی میں ایک لاکھ مصری پاؤنڈز سے زیادہ رقم خرد برد کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔سابق صدر پر الزام تھا کہ انھوں نے صدارتی محل کی تزئین وآرائش کے لیے مختص کی گئی رقم میں غبن کیا تھا اور اس کو ذاتی جائیداد میں اضافے پر خرچ کیا تھا۔
اعلیٰ عدالت نے سابق صدر کے دونوں بیٹوں علاء اور جمال کو کرپشن کے اس مقدمے میں سنائی گئی چار، چار سال قید کا حکم بھی کالعدم قرار دے دیا تھا۔تاہم اس عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ واضح نہیں کیا تھا کہ حسنی مبارک اب آزاد ہیں یا وہ زیر حراست ہی رہیں گے۔
وہ فروری 2011ء میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد دوسال سے زیادہ عرصے تک جیل میں قید رہے تھے اور انھیں اگست 2013ء میں رہا کیا گیا تھا۔تب سے وہ قاہرہ کے جنوب میں واقع علاقے معدی میں ایک فوجی اسپتال میں نظربند ہیں۔ قبل ازیں ان پر سنہ 2011ء کے اوائل میں ان کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے دوران مظاہرین کی ہلاکتوں کا مقدمہ بھی ختم کیا جاچکا ہے۔عدالت کے اس فیصلے کے خلاف مصر بھر کی جامعات کے طلبہ نے شدید احتجاج کیا تھا اور قاہرہ کے مشہور میدان التحریر میں سکیورٹی فورسز کی مظاہرین پر فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور نو زخمی ہوگئے تھے۔