نئی دہلی،28جنوری(یو این آئی)2013اسمبلی انتخابات کے دوران مدھیہ پردیش کے ہاردا ضلع میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے معاملے میں آج سپریم کورٹ نے سابق ریاستی وزیر کمل پٹیل سمیت نامعلوم افراد کے خلاف نوٹس جاری کیا ہے ۔عدالت عظمی نے سی بی آئی کے ذریعہ دائر اپیل کی سماعت کے دوران مدھیہ پردیش حکومت کو یہ نوٹس جاری کیا ہے ۔اس معاملے کی تفتیش مرکزی تفتیشی ایجنسی کر رہی تھی جس نے اس میں سابق ریاستی وزیر مسٹرپٹیل کے ملوث پائے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
جسٹس ایچ ایل دتو و جسٹس اے کے سیکری پر مشتمل بنچ نے اس معاملے میں عرضی گذار انوراگ مودی کے وکیل پرشانت بھوشن کی باتیں سننے کے بعد نوٹس جاری کی ہے ۔ عرضی گذار نے اس معاملے میں الزام عائد کرتے ہوئے عدالت عظمی کو بتایا کہ یہ فرقہ وارانہ فساد منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا تھااور اسے مذہبی منافرت پھیلانے کے تعلق سے جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔عدالت نے سی بی آئی سے کہا ہے کہ وہ روینیو منسٹر مسٹر پٹیل کے خلاف مزید تفتیش کرے اور ان کے رول کی جانچ کرے ۔
مسٹر بھوشن نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ اس معاملے کا کلیدی ملزم سریندر راجپوت جو ٹائیگر کے نام سے جانا جاتا ہے سابق وزیر کا قریب ترین حلیف ہے اور برسر اقتدار پارٹی کے سرگرم رکن ہے ۔روجپوت کو پولس نے گرفتار کیا تھا لیکن بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس معاملے میں اب تک 12ایف آئی آر درج ہو چکے ہیں ۔
واضح رہے کہ عرضی گذار نے فرقہ وارانہ فساد کے معاملے میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی تھی جسے مسترد کردیا گیا تھا۔اسکے بعد یکم اگست 2014کو سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کرتے ہوئے عرضی دائر کی گئی جس کی سماعت کے بعد نوٹس جاری ہوئی۔غور طلب ہے کہ ہاردا میں 19ستمبر 2013کو فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا۔ہاردا ضلع کے کھرکیا تحصیل کے چیپا باد پولس اسٹیشن حلقہ کے تحت یہ الزام لگاتے ہوئے فرقہ وارانہ فساد رونما ہوا تھا کہ اقلیتی فرقہ کے چند لوگوں نے پابندی عائد ہونے کے باوجود مبینہ طور پر گائے کا ذبیحہ کیا تھا۔اس فساد میں ایک خاص فرقہ کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں 54افراد کے مکان و دکان جلادئے گئے تھے اور کروڑوں کی مالیت کا اثاثہ خاکستر کر دیا گیا تھا۔مسٹر مودی نے دائر عرضی میں کہا تھا کہ سانس کی نلی میں پلاسٹک ٹھونس دئے جانے کی وجہ سے اس گائے کا دم گھٹ گیا تھا جس سے اس کی موت ہوگئی تھی۔گائے کو کسی نے ذبح نہیں کیا تھا بلکہ اس سلسلے میں افواہ پھیلائی گئی تھی۔