برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں فینس بری پارک میں مسجد مقامی مسلمانوں کی عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ دین حنیف کی رواداری اور برادشت پر مبنی سنہری اصولوں کی تبلیغ کا بھی اہم مرکز ہے۔ یہاں آنے والے غیر مسلموں اور نو مسلموں دونوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ ان کی چائے سے
تواضح بھی کی جائے گی۔
لندن کے مرکز میں مسلمانوں کے اس عظیم مرکز کو کئی سال کی بندش کے بعد ایسے وقت میں کھولا گیا جب چند ہفتے قبل فرانس کے دارالحکومت پیرس میں شدت پسندوں کے حملوں میں بیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ مسجد ایک ایسے وقت میں کھولی گئی ہے جب شام اور عراق میں ان دنوں داعش کے مظالم کی داستانیں بھی زبان زد عام ہیں اور وہ اسلام کے نام پر اپنے مخالفین کو نہایت بے رحمی کے ساتھ قتل کر رہی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی “اے ایف پی” نے لندن میں فینس بوری پارک میں واقع اس مسجد کے کھولے جانے کے پہلے روز کا احوال بیان کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک مسلمان ریٹائرڈ ڈاکٹر محمد علی سعید نے مسجد کے مرکزی داخلی دروازے پر مسلمانوں کا استقبال کیا۔ انہوں نے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر آنے والوں کو اسلام کے رواداری اور برداشت کے اصول کے تحت خوش آمدید کیا۔
خیال رہے کہ مذکورہ مسجد سنہ 1990ء میں بنائی گئی تھی تاہم یہ کچھ عرصہ شدت پسندوں کا مرکز بھی رہی جنہوں اسے “لندنستان” کا نام دے رکھا تھا۔
ڈاکٹر محمد علی سعید”Open Doors Day” نامی تنظیم کے رکن ہیں۔ یہ تنظیم حال ہی میں برطانیہ میں مسلم کونسل کے زیر اہتمام قائم کی گئی ہے جس کا مقصد اسلام کے رواداری برداشت کی تعلیمات کو عام کرنا ہے۔
اس وقت لندن کی یہ مسجد اسی تنظیم کے زیر انتظام ہے۔ مسجد میں انگریزی زبان میں ترجمہ قرآن کی سماعت اور اسلام کے بارے میں معلومات کے حصول کے لیے آنے والوں کی چائے سے بھی تواضع کی جائے گی۔ نو مسلمانوں اور غیر مسلموں کو بھی اسلامی تاریخ کےبارے میں معلومات فراہم کی جائیں گی۔
گذشتہ روز ڈاکٹر سعید نے 20 غیر مسلم زائرین کا استقبال کیا۔ زائرین جب مسجد پہنچے ڈاکٹر سعید نے انہیں مسجد میں داخل ہوتے وقت ادب واحترام کے تحت جوتے اتارنے کی ترغیب دی۔
نو مسلموں کی آمد پر انہیں اسلام کی تعلیمات کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ نماز پنجگانہ کا طریقہ بتایا گیا اور انہیں اسلام کے بنیادی عقادی پر روشنی ڈالی گئی۔
اس موقع پر ڈاکٹر سعید نے مزاحیہ پیرائے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہمارے پاس یہاں بم تو نہیں لیکن میں آپ کو جلد ہی اس کی اجازت دوں گا” اس پر تمام زائرین ہنس دیے۔ زائرین میں برطانوی شہریوںکے علاوہ اسپین کے دو میاں بیوی اور ایک طالبہ بھی موجود تھی۔
ڈاکٹر سعید نے مسجد کے ماضی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم مسجد سے وابستہ منفی پہلوئوں کا ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ ان کا اشارہ مسجد کے شدت پسندوں کے زیر استعمال رہنے کے عرصے کی طرف تھا۔
خیال رہے کہ یہ وہی مسجد ہے جس میں القاعدہ کے ایک ہمدرد سمجھے جانے والے ابو حمزہ المصری نامی عالم دین نے 10 سال تک امامت اور خطابت کے فرائض انجام دیے۔ برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ کئی شدت پسند رہنما اس مسجد میں ملاقات کرتے رہے ہیں۔ تاہم سنہ 2003ء میں ابو حمزہ المصری کو برطانیہ سے بے دخل کر کے امریکا بھیج دیا گیا تھا۔ امریکا میں ان پرمقدمہ چلایا اور حال ہی میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
فینس بری پارک مسجد کو کھولے جانے پر مقامی مسلمانوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور مسجد کا انتظام وانصرام روشن خیال اور اعتدال پسند مسلمانوں کے ہاتھ میں آنے پر مقامی غیر مسلم آبادی نے بھی اطمینان کا اظہار کیا۔