پاکستان کی بڑی اور کامیاب ترین فلم ڈسٹری بیوشن کمپنیز میں شمار ہونے والی کمپنی ’مانڈی والا انٹرٹینمنٹ‘ کے روح رواں، ندیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ ’بالی ووڈ کی بلاک بسٹر فلم ’شعلے‘ کی پاکستان میں ریلیز کے بعداگلہ نمبر ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ اور ’دیوداس‘ کا ہے۔‘وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ تینوں ایسی فلمیں ہیں جنہیں عرصے سے لوگ بڑی اسکرین پر دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ مارچ کی 20تاریخ کو ’شعلے‘کی ریلیز سے یہ سلسلہ شروع ہورہا ہے۔‘فلم ’شعلے‘ کو ہی سب سے پہلے ریلیز کرنے کی کیا وجہ ہے؟۔۔اس سوال پر ندیم مانڈوی والا کا کہنا تھا ’شعلے‘۔۔ کی کامیابی کے چرچے 15اگست 1975کو اس کی پہلی مرتبہ ریلیز کے وقت شروع ہوئے تھے اور آج 40 سال گزرجانے کے بعد تک جاری ہیں۔اس کی لازوال کامیابی کا ہی نتیجہ ہے کہ اسے گزشتہ سال ’ری ماسٹر‘ کیا گیا۔۔خاص طور سے نئی جنریشن کیلئے اسے ’ٹوڈی‘ اور ’تھری ڈی‘ ٹیکنالوجی میں منتقل کیا گیا۔ یہ پاکستان میں ’شعلے‘ کی ریلیز کا پہلا بڑا سبب ہے۔‘دوسرے سبب کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ’شعلے بلاشبہ ایک منفرد اور کلاسک فلم ہے جو پہلے کبھی پاکستان میں ریلیز نہیں ہوئی۔ بہت سے لوگ اس فلم کا لطف سینما کی بڑی اسکرین پر اٹھانا چاہتے تھے اسی لئے فلم کی ریلیز کا فیصلہ کیا۔
‘ندیم مانڈوی والا سے سوال کیا گیا کہ ’کیا شعلے کے بعد دیگر بلاک بسٹر بالی ووڈ فلمیں بھی پاکستان میں ریلیز کی جائیں گی؟‘۔۔ تو ان کا کہنا تھا، ’جہاں تک میرے علم میں ہے شاہ رخ خان کی دیواس اور دل والے دلہنیا لے جائیں گے بھی پاکستان میں ریلیز کئے جانے کا پورا ارادہ ہے۔اس کی کامیابی کا میں کیا تذکرہ کروں سبھی جانتے ہیں کہ ممبئی کے ایک سنیما پر ’ دل والے دلہنیا۔۔۔ مسلسل 20سال سے دکھائی جارہی ہے۔ تاہم، میرا نہیں خیال کہ باقی فلموں کو پاکستان میں ریلیز کی ضرورت ہے۔‘فلم شعلے کے بارے میں بالی وڈ ایکٹریس ہیما مالنی نے ایک مرتبہ کہا تھا شعلے جیسی فلمیں دوبارہ نہیں بن سکتیں۔ واقعی ایسا ہی ہے۔
شعلے نسل در نسل دیکھی اور پسند کی جانے والی فلموں میں شامل ہے۔ یہی اس فلم کا سب سے بڑا تاریخی حوالہ ہے۔فلم کی ریلیز کو 40 سال ہوگئے ہیں، لیکن اس کا جادو دیکھنے والوں پر اب بھی اپنا اثر برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2002میں ’برٹش فلم انسٹی ٹیوٹ‘ کے پول میں ہندی سینما کی ٹاپ 10فلموں میں ’شعلے‘ پہلے نمبر پررہی جبکہ’50ویں فلم فیئر ایوارڈز‘ میں اسے ’گزشتہ50 سالوں کے دوران تیار ہونے والی بہترین فلم‘ قرار دیا گیا۔شعلے رمیش سپی اور جی پی سپی نے ڈائریکٹر اور پروڈیوز کی تھیں جبکہ امیتابھ بچن، جیا بچن،دھرمیندر، ہیما مالنی ، امجد خان ، سنجیو کمار، اے کے ہنگل ، اسرانی، سچن ، میک موہن اور ستین کپو وغیرہ اس کی کاسٹ میں شامل تھے۔ڈائیلاگز جو ’محاورے‘ بن گئے۔
۔’شعلے‘ کی کاسٹ اور تیکنیکی عملے میں شامل بہت سے لوگ اب اس دنیا میں نہیں لیکن ’شعلے‘ کا نہ صرف ہرکردار امرہوگیا بلکہ اس کے ڈائیلاگز۔۔آج تک ’محاوروں ‘ کے طور پر بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔’تیرا کیا ہوگا کالیہ‘۔۔۔’کتنے آدمی تھے؟‘۔۔۔’ یہ ہاتھ مجھے دے دے ٹھاکر‘۔۔’ان کتوں کے آگے مت ناچنا بسنتی‘۔۔۔’ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر‘۔۔۔’جیل میں سرنگ‘۔۔اور۔۔’اتنی خاموشی کیوں ہے میرے بھائی۔۔۔‘