یوکرین میں گذشتہ اپریل سے جنگ جاری ہے جس میں اب تک تقریباً ساڑھے پانچ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں
امریکی صدر براک اوباما نے روسی صدر ولادی میر پوتن کو متنبہ کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین میں ’جارحانہ اقدامات‘ جاری رکھے تو اسے اس کی بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
امریکہ کے صدر نے اپنے روسی ہم منصب پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین کے تنازعے کے پرامن
حل کے لیے بات چيت کے تازہ موقعے سے فائدہ اٹھائیں۔
صدر پوتن بدھ کو فرانس، جرمنی او ریوکرین کے رہنماؤں سے بیلاروس میں ہونے والے اجلاس میں ملاقات کر رہے ہیں۔
ان امن مذاکرات سے قبل مشرقی یوکرین سے شدید جنگ کی اطلاعات آئی ہیں۔
منگل کو کراماتورسک کے شہری علاقے اور ایک اہم فوجی اڈے پر ہونے والے راکٹ حملوں میں چار فوجی اور کم از کم آٹھ شہری ہلاک ہو گئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ راکٹ باغیوں کے قبضے میں ایک علاقے سے فائر کیے گئے تھے، لیکن علیحدگی پسندوں نے ان حملوں سے انکار کیا ہے۔
واضح رہے کہ یوکرین میں گذشتہ اپریل سے جنگ جاری ہے جس میں تقریبا ساڑھے پانچ ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں اور حالیہ دنوں میں شہریوں کی ہلاکت میں اضافہ ہوا ہے۔
صدر اوباما نے مسٹر پوتن کو مذاکرات سے قبل شام کو فون کرکے یوکرین کے لیے امریکی حمایت کا اعادہ کیا ہے
یوکرین اور مغربی ممالک روس پر اپنی فوج بھیجنے اور باغیوں کو مسلح کرنے کا کا الزام لگاتے ہیں لیکن روس ان کی تردید کرتا ہے۔
بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں ہونے والے اجلاس سے امید کی جا رہی ہے کہ جنگ بندی اور بھاری اسلحہ واپس لینے پر معاہدے کے علاوہ غیر عسکری علاقے کے قیام پر توجہ مرکوز رہے گی۔
روسی ذرائع کا کہنا ہے کہ چاروں ممالک کے اعلیٰ حکام نے ملاقات سے قبل جنگ بندی کی شرائط پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
بی بی سی کی سفارتی نامہ نگار برجیٹ کینڈل کا کہنا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ صدر پوتن کتنی چھوٹ دینے کے لیے تیار ہیں کیونکہ وہ یوکرین میں روسی عمل دخل سے انکار کرتے رہے ہیں۔
صدر اوباما نے مسٹر پوتن کو مذاکرات سے قبل شام کو فون کرکے یوکرین کے لیے امریکی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
اس سے قبل انھوں نے سفارت کاری کی ناکامی پر یوکرین کو ’خطرناک دفاعی ہتھیار‘ فراہم کرنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا تھا۔
منسک میں یوکرین پر امن مذاکرات سے قبل میڈیا کے اہلکار چاروں ممالک کے رہنماؤں کے منتظر ہیں
روس نے مغربی ممالک کو متنبہ کیا ہے کہ یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے سے بحران مزید بڑھ جائے گا۔
کراماتورسک کے علاوہ مشرقی یوکرین میں دوسری جگہوں پر بھی جنگ جاری ہے۔
باغیوں نے کہا ہے کہ انھوں نے دیبالتسوا میں افواج کی رسد کا راستہ منقطع کر دیا ہے اور وہ وہاں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
دوسری جانب کیئف کے وفادار انتہائی قوم پرست رضاکار گروپ کے کمانڈر نے کہا ہے کہ وہ جنوبی ساحلی شہر کے باہر روس نواز باغیوں کے ٹھکانے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔