لجین الہذلول متحدہ عرب امارات سے گاڑی چلاتی ہوئی سعودی عرب میں داخل ہوئی تھیں
سعودی عرب میں حکام نے خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والی دو خواتین کو 70 دن حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا ہے۔
25 سالہ لجين الہذلول اور 33 سالہ میساء العمودی کو اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ اس پابندی کے خلاف مہم چلا رہی تھیں۔
ان کی حراست کے بعد ایسی خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں خواتین کا ڈرائیونگ کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔
یہاں قانوناً خواتین کے گاڑی چلانے پر پابندی نہیں لیکن وہاں صرف مرد حضرات کو ہی ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جاتے ہیں اور اگر کوئی خاتون گاڑی چلائے تو اسے جرمانے اور قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سعودی خواتین ان پابندیوں کے خلاف سوشل میڈیا سمیت کئی پلیٹ فارموں پر مہم چلا رہی ہیں۔
لجين الہذلول کو گذشتہ برس یکم دسمبر کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ متحدہ عرب امارات سے گاڑی چلاتی ہوئی سعودی عرب میں داخل ہوئی تھیں۔
سعودی خواتین ان پابندیوں کے خلاف سوشل میڈیا سمیت کئی پلیٹ فارموں پر مہم چلا رہی ہیں
میساء العمودی متحدہ عرب امارات میں مقیم سعودی صحافی ہیں اور انھیں اس وقت پکڑا گیا جب وہ سرحد پر لجین کی مدد کے لیے پہنچیں۔
دسمبر کے اواخر میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان خواتین کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کیا جا رہا ہے اور یہ فیصلہ ڈرائیونگ پر پابندی کی خلاف ورزی کے باعث نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر ان کے تبصروں کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
ان دونوں خواتین کے ٹوئٹر اکاؤنٹس کو بڑی تعداد میں لوگ فالو کرتے ہیں۔
ان کی رہائی ایسے وقت عمل میں آئی ہے جب برطانیہ کے شہزادہ چارلز نے ملک کے نئے بادشاہ شاہ سلمان سے ملاقات کی ہے۔
اس ملاقات میں برطانوی ولی عہد نے دس سال قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزا پانے والے بلاگر رائف بداوی کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔