متعدد ہلاک شدگان کی نمازِ جنازہ جمعے کی شب ہی ادا کر دی گئی تھیں
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں جمعے ہو ہونے والے خودکش دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 21 تک پہنچ گئی ہے جبکہ ان حملوں کا مقدمہ تحریکِ طالبان پاکستان کے رہنما امیر عمر نرے کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔
یہ تین خودکش دھماکے حیات آباد میں واقع امامیہ مسجد میں جمعے کی دوپہر اس وقت ہوئے تھے جب وہاں بڑی تعداد میں لوگ نماز کے لیے جمع تھے۔
پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپیلیکس کی انتظامیہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ جمعے کو ان حملوں میں 20
افراد کی ہلاکت کے بعد سنیچر کی صبح ایک اور زخمی چل بسا۔
انتظامیہ کے اہلکار کے مطابق اب ہسپتال میں 29 زخمی زیرِ علاج ہیں۔
ادھر پشاور پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی نے حیات آباد تھانے کے ایس ایچ او کی مدعیت میں تحریکِ طالبان پاکستان کے طارق گیدڑ گروپ کے سربراہ عمر نرے کے خلاف ان حملوں کا مقدمہ درج کیا ہے۔
ایک حملہ آور نے خود کو مسجد کے برآمدے میں دھماکے سے اڑایا جبکہ ایک حملہ آور کی باقیات مسجد کے ہال سے ملی ہیں۔
سی ٹی ڈی تھانے کے محرر قاسم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان رہنما کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اس حملے کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کی تھی اور ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ ڈاکٹر عثمان کی پھانسی کا بدلہ ہے۔
طالبان کی جانب سے اس کارروائی میں حصہ لینے والے شدت پسندوں کی تصویر بھی جاری کی گئی تھی جس میں انھیں عمر نرے کے ہمراہ دکھایا گیا تھا۔
آئی ایس پی آر کے ترجمان نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ عمر امیر عرف نرے اس وقت افغانستان میں روپوش ہے۔ یہ کمانڈر آرمی پبلک سکول حملے میں بھی ملوث تھا۔
عمر امیر عرف نرے اس وقت افغانستان میں روپوش ہے
حیات آباد میں خودکش بم دھماکوں کے بعد خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس ناصر درانی نے بیان دیا تھا کہ حملہ آوروں کی تعداد تین سے چار تھی جو امام بارگاہ کے باہر لگی باڑ کاٹ کر اور دیوار پھاند کر آئے۔
حملہ آوروں نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے آرمی پبلک سکول پر حملے کی طرز پر پہلے اپنی گاڑی کو آگ بھی لگائی تھی۔
آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ ایک حملہ آور نے خود کو مسجد کے برآمدے میں دھماکے سے اڑایا جبکہ ایک حملہ آور کی باقیات مسجد کے ہال سے ملی ہیں۔
خیال رہے کہ یہ رواں برس شیعہ مسلک کی مساجد کو نمازِ جمعہ کے موقع پر نشانہ بنائے جانے کا دوسرا واقعہ ہے۔
اس سے قبل صوبہ سندھ کے شہر شکار پور میں کربلائے معلّیٰ نامی امام بارگاہ میں دھماکے سے 60 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔