لندن۔نیند سے متعلق ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ نیند کی کمی کا غذا کے انتخاب کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ ایک رات کی ناکافی نیند کیبعد لوگوں میں مرغن کھانوں کی بھوک جاگ اٹھتی ہے اور یہ بھوک ان کی معمول کی خوراک سے زیادہ ہوتی ہے لہذا ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا ہیکہ نیند کی کمی وزن میں کلو کے حساب سے اضافہ کر سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے محققین نے مطالعے میں دیکھا کہ ہمارے دماغ کی سرگرمیوں میں تھکن کے ساتھ کس طرح کی تبدیلیاں آتی ہیں۔
مطالعے کے نتیجے سے پتا چلا کہ نیند کی کمی سے دماغ کا وہ حصہ متاثر ہوتا ہے جو غذا کیانتخاب کے ساتھ متعلق ہے اور ذہنی تھکان کی وجہ سے لوگوں میں
زیادہ چکنائی والے کھانوں کی بھوک جاگ اٹھتی ہے۔
مطالعے سے منسلک محققین کا کہنا ہے کہ ایک رات کی نیند کی کمی کا سامنا کرنے کے بعد لوگوں میں زیادہ حراروں والی غذائیں منتخب کرنے کا امکان ہوتا ہے اور ایسے میں وہ صحت مند غذاؤں کی بجائے تلے ہوئے پکوان اور مرغن کھانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
تحقیق کی سنئیر مصنف پروفیسر ہینگی راؤ نے بتایا کہ مطالعے کے نتیجے کا اطلاق شام کے اوقات میں ملازمت کرنے والے ورکرز اور رات کی شفٹ میں کام کرنے والوں یا پھر دن کیمختلف اوقات میں کام کرنے والوں پر ہوتا ہے۔
تفتیش کاروں نے ۳۴ رضا کاروں کو پانچ راتوں اور چار دن کے لیے اپنی نگرانی میں رکھا ان میں سے ہر ایک شرکاء کو ایک رات معمول کی نیند سونے کے لیے کہا گیا جبکہ بقیہ تین راتوں میں انھوں نے نیند کی کمی کا سامنا کیا اور اس کے ساتھ انھیں مختلف انواع و اقسام کے کھانوں کی پیشکش بھی کی گئی۔
نتائج سے ظاہر ہوا کہ نیند کی کمی کا شکار ہونے والے لوگوں نے مرغن کھانوں کا انتخاب کیا اور مرغن کھانوں سے زیادہ حراروں کی ضرورت کو پورا کیا جبکہ چکنائی والی اشیاء کے مقابلے میں انھوں نے کاربوہائیڈریٹ پر مشتمل غذاوں سے بہت کم حرارے حاصل کئے۔
تفتیش کاروں کے مطابق پچھلے مطالعوں میں نیند کی کمی اور موٹاپے کے تعلق کی وضاحت کی گئی تھی اور وزن میں اضافے کی وجوہات کا تجزیہ کرتے ہوئے میٹا بولک ہارمونز میں تبدیلی پر توجہ مرکوز رکھی تھی لیکن ہماری تحقیق میں پہلی بار دماغ کے نیٹ ورک کے رابطے اور کھانے کی مقدار کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی گئی ہے۔
تاہم پروفیسر راؤ نے کہا کہ ان کے مطالعے میں اصل میں مجموعی نیند کی محرومی کی جانچ پڑتال کی گئی ہے لیکن یہ نتیجہ دائمی جزوی نیند کی کمی کا شکار افراد کے لیے بھی درست ثابت ہو سکتا ہے جبکہ اس قسم کی نیند ہمارے معاشرے میں ان دنوں زیادہ مقبول ہے۔