نئی دہلی، 19فروری (یو این آئی) اردو زبان کے تئیں مایوس نہ ہونے کی تلقین کرتے ہوئے نیشنل بک ٹرسٹ کے ڈائرکٹر ایم اے سکندر نے کہا کہ ملک میں اس وقت ہندی اور انگریزی کے بعد اردو تیسری سب سے بڑی زبان ہے جس کی کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ یہ بات انہوں نے ماہنامہ دہلی کے سابق ایڈیٹر سید ضیاء الرحمان غوثی کی مرتب کردہ کتاب ‘‘مسرت کے ترانے ’’ کے رسم اجرا کے موقع پر کہی۔انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں اردو کی کتابیں فروخت نہیں ہوتیں لیکن جب ہم نے کشمیر میں کتاب میلہ لگایا تو اردو کی بہت زیادہ کتابیں فروخت ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے حوصلہ پاکر انہوں نے مختلف موضوعات پر اردو کی تقریباَ ڈیڑھ سو ان کتابوں کو دوبارہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو شائع نہیں ہورہی تھیں۔کتاب کا اجر
ا کرتے ہوئے راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹرسید فیصل علی نے کہا کہ بچوں کا ادب تخلیق نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں بچے بھٹک رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کا ادب نہ صرف بچوں کی ذہنی نشوونما میں مدد کرتا ہے بلکہ اسے ایک اچھاانسان بننے میں بھی مدد کرتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہاکہ جب بچہ اپنا ادب پڑھتا ہے تو ان میں ادبی صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیت سے نہ صرف ادب کے میدان میں قدم رکھتا ہے بلکہ وہ اچھا ادب بھی تخلیق کرتا ہے ۔انہوں نے بچوں کے ادب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب کہ ہم بیرون ممالک سفر کرتے ہیں ترقی یافتہ ممالک کے بچوں میں ایر پورٹ میں کتابیں دیکھتے ہیں بچہ اپنا خالی وقت کتابوں کے پڑھنے میں استعمال کرتا ہے ۔یہ چیز یں اب ہندوستان میں بھی نظر آنے لگی ہیں لیکن اردو میں بچوں کے ادب کی تخلیق میں بہت کمی آئی ہے اور جو ادب تخلیق کی جارہی ہے وہ اس معیار کا نہیں ہے جس سے بچوں میں کتاب کے تئیں رغبت پیدا ہو۔جدید خبر کے ایڈیٹر اور مشہور صحافی معصوم مرادآباد نے کتاب کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سید ضیاء الرحمان غوثی اردو کے خاموش خادم ہیں۔ انہیں صلے کی کبھی تمنا نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ وہ جب تک وہ دہلی حکومت میں رہے اس وقت تک حکومت کا دہلی کا رسالہ ماہنامہ دہلی پابندی سے نکلتا رہا لیکن جیسے ہی غوثی صاحب وہاں سے سبکدوش ہوئے اس کے بعد رسالہ آج تک بند ہے ۔ انہوں نے کہاکہ غوثی صاحب کا ابتدا سے بچوں کے ادب سے وابستگی رہی ہے ۔ انہوں نے بچوں کے لئے رسالہ نکالا، بچوں کے لئے لکھاا ور بچوں کے لئے نظم ‘‘مسرت کے ترانے ’’ کے نام کتاب مرتب کی ہے ۔
مشہور صحافی سہیل انجم نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بہار سے لیکر اب تک بچوں کے لئے مسٹر غوثی نے غیر معمولی سفر کیا ہے ۔ انہوں نے پہلے پٹنہ سے پہلے بچوں کا رسالہ مسرت نکالا جو پورے ہندوستان میں مشہور ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ اس وقت بچوں کے ادبی رسالے نہیں ہیں یا بچوں کا ادب نہیں لکھا جارہا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جس معیار کی ادبی تخلیق لکھی جانی چاہئے اس وقت یہ تخلیق نہیں لکھی جارہی ہے ۔ نیشنل بک ٹرسٹ کے زیر اہتمام منعقدہ اس تقریب میں نیشنل بک ٹرسٹ کے اڑیہ زبان کے ایڈیٹر مسٹر مہاپاترا نے کتاب کا تعارف کرایا اور انہوں نے بچوں کے ادب کی اہمیت پر اظہار خیال کیا۔ کتاب کے مرتب سید ضیا ء الرحمان غوثی نے اپنے بچوں کے ادب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ بچوں کے ادب میں تجسس اور حیرت کے عنصر کا ہونا ضروری ہے ۔ اس وقت تک بچوں کو رسالوں اور کتابوں کی طرف راغب نہیں کیا جاسکے گا جب تک ان کے لئے ان میں غیر معمولی چیز نہ ہو کیوں کہ بچے روایتی ادب اور روایتی باتوں سے اوب جاتے ہیں۔ اس لئے بچوں کے ادب کی تخلیق آسان نہیں ہے ۔تقریب کے صدر اور سپریم کورٹ کے وکیل نفیس احمد صدیقی نے اترپردیش میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ 26اکتوبر 2014کو سپریم کورٹ نے اردو کو اترپردیش کی دوسری سرکاری زبان قرار دے دیا ہے ۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کے نفاذ کے لئے کوشش کریں۔ ہم لوگ کئی وکیلوں کے ساتھ مل کر اس کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں اور کتابیں بھی شائع کر رہے ہیں۔ اس تقریب ہندی کی مشہور ادیبہ چارو کیشری کی اردو اور ہندی میں لکھی کتاب رادھا رفیق کابھی اجرا عمل میں آیا۔ وہ اردو میں کرن شبنم کے نام سے لکھتی ہیں۔
اس کے سپریم کورٹ کے وکلاء ، سماجی کارکن، ادیب، صحافی دیگر شعبے سے تعلق رکھنے والے حضرات نے شرکت کی۔