لکھنؤ۔(نامہ نگار)بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزاد کا یوم وفات(۵۷؍ برسی) اترپردیش کانگریس کمیٹی کے مرکزی دفتر ۱۰؍مال ایو نیو لکھنؤ میں زیر صدارت پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر وسابق ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر نرمل کھتری کے ذریعہ انکی تصویر پر گلہائے عقیدت پیش کرکے منایاگیا،اور سینئر کانگریس لیڈروں کی موجودگی میں خراج عقیدت پیش کیاگیا۔
ڈاکٹر نرمل کھتری نے مولانا آزاد کی حیات وخدمات پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مولانا نہایت ذہین، بے مثال خطیب، وسیع النظر اور غیرمعمولی شخصیت کے مالک، آزاد ملک کے پہلے وزیر تعلیم ،عظیم سیاست داں، آپسی بھائی چارہ اور قومی اتحادکے علمبردارتھے، ۱۹
۲۰ ء میںگاندھی جی کے ساتھ کانگریس میں شامل ہوئے، اورسب سے کم عمر ۱۹۲۳ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر ہونے کے علاوہ انکے جگری دوست موتی لال نہرو، سی آرداس، اور بھولا بھائی ڈیسائی وغیرہ تھے، اور انھیں کی صدارت میں انگریزوں کے خلاف ۱۸؍ اگست ۱۹۴۲ء میں’’ہندوستان چھوڑو‘‘تحریک کومنظوری ملی، اور آخر تک کانگریس ہی میں رہے۔
انھوں نے کہا کہ جواہرلال نہر ونے مولانا آزاد کی فکری بصیرت، بلندسوچ وفکرکے پیش نظر کہاتھاکہ :کبھی کبھی ان کی تقریروں او ر تحریروں سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ قومی اتحادانھیں ملک کی آزادی سے بھی زیادہ عزیز ہے،وہ فرقہ پرستی کودنیاکا بدترین گناہ سمجھتے تھے، وہ ہمیشہ ملک دشمن اور فرقہ پرستی جیسی لعنتوں سے بچنے کی تلقین کرنے اور ملک کی مستحکم تعمیر کے لئے قومی یکجہتی کی دعوت دیتے رہے ، دہلی میں واقع ان کا سرکاری مکان جنگ آزادی کا ہیڈ کوارٹر تھا،مجاہدین آزادی کے ساتھ ملک کو آزاد کرانے میں بڑا اہم ونمایاں کرداراداکیا،ان کی عظیم خدمات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔
آج ملک و صوبہ میں آپسی بھائی چارہ ، گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے کے لئے اہم اقدام کرنے کے علاوہ اپنے ذاتی مفاد کی قربانی دے کراپنے فریضہ کو انجام دینا ہوگا، مولانا ابوالکلام آزاد کی تعلیمات، اور ان کے افکار وخیالا ت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، اور یہی انھیں سچا خراج عقیدت ہوگا۔
اس موقع پرریاستی کانگریس اقلیتی شعبہ کے چیئرمین حاجی سراج مہدی،ہریش باجپئی، ستیہ دیوترپاٹھی،معروف خاں،سابق ممبر اسمبلی فضل مسعود، امیرحیدر ، پرمود سنگھ، وریندر مدان،امرناتھ اگروال،ہنومان ترپاٹھی، شیوپانڈے،شبنم پانڈے، لالتی دیوی، ڈاکٹر ہلال احمد نقوی،اومکار ناتھ سنگھ، شکیل فاروقی،کمال یعقوب، کمال احمدہیرو، سجاد حسن،منوج شکلا،رانا پرتاب سنگھ،لکی بترا،ساہوجی،شمشاد عالم، ارشاد علی،،صابرعلی،محمدضمیر وغیرہ موجود تھے ۔
٭دوسری جانب گولڈن فیوچر ایجو کیشن اینڈ ویلفیر سوسائٹی کے تحت مدرسہ ریاض الجنۃ (برولیا، ڈالی گنج )میں بعنوان ’’مولانا ابوالکلام آزاد ایک تاریخ ایک فکر‘‘جلسہ زیر صدارت ڈاکٹر ہارون رشید ندوی منعقد ہوا، جس کا آغاز مدرسہ کے طالب علم محمدانس کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔
صدر جلسہ نے کہاکہ مولانا ابوالکلام آزاد ایک عہد ساز شخصیت کا نام ہے،وہ علامہ شبلی کے فیض یافتہ، انکی فکر کے نمائندے،دین کے پرجوش داعی، اور فکر ندوہ کے ترجمان تھے،انھوں نے علمی اور ثقافتی سطح پر ایسی قابل ذکرخدمات انجام دیں، جوہندوستان کے لئے طرہ ٔ افتخار ہیں،انکی سیاسی بصیرت،ہندومسلم اتحاد کا نظریہ وطن کے لئے بے انتہاقربانیوں کا تسلسل کی افادیت آج بھی محسوس کی جارہی ہے، مولانا کا مایہ نازکارنامہ قرآن پاک کاترجمہ وتفسیر ہے،ان کی تصنیف’’ ترجمان القرآن‘‘وقت کی ایک اہم تصنیف ہے مولانا کے افکار وخیالات کواپنی زندگی میں اتار کر ہی ملک کو ترقی، امن واتحادکے راستے پرگامزن کیاجاسکتاہے۔
مولانا محمدشمیم ندوی نے کہا کہ اما م الہند مولانا ابوالکلام آزاد علمی ودینی خصوصیات کے حامل ہونے کے ساتھ اگر ان کے عظیم کارناموںکو کتابی شکل دی جائے،تو مستقل ایک لائبریری قائم ہوجائے،مولانا آزاد نہ صرف ایک نام ہے ، بلکہ ایک تاریخ،ایک فکر،اور ایک پیغام کا نام ہے،انکی تحریروں اور تقاریر نے ہمیشہ ایک نیاانقلاب پیداکیا،مولاناکوخاص طور سے قرآنی فکر وعمل سے بڑی رغبت تھی۔جلسہ کو مولانا اسحاق ندوی نے بھی خطاب کیا ۔اس موقع پرڈاکٹر وسیم صدیقی ندوی، احمدمیاں ایم اے، حافظ صہیب ، اسحق ندوی،مولانا ادیب الرحمن ندوی، محمداویس،وغیرہ موجود تھے۔