تینوں طالبات اسکول میں بنیاد پرست نظریات کی جانب مائل ہوئیں، پرنسپل
ترکی کی حکومت نے ممکنہ طور پر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے ترکی پہنچنے والی برطانوی لڑکیوں کے بارے میں بہت دیر سے معلومات فراہم کرنے پر برطانوی ایجنسیوں پر تنقید کی ہے۔
15 سالہ شمیمہ بیگم اور عامرہ عباسی اور 16 سالہ خازیدہ سلطانہ نے برطانوی ہوائی اڈے گیٹ وک سے ترکش آئیر لائن کا ٹکٹ لیاتھا۔
اب تک ترکی نے 10000 کے قریب ایسے لوگوں کا پتہ چلا کر ان پر پابندی عائد کی ہے جن کے بارے میں یہ رپورٹس موصول ہوئی تھیں کہ وہ مبینہ طور پر
دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں
ترک نائب وزیراعظم
ترکی کے نائب صدر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اپنا کام کرتے ہیں اگر انھیں پہلے آگاہ کر دیا جاتا تو ضروری اقدامات کیے جاتے۔
انھوں نے کہا کہ اب تک ترکی نے دس ہزار کے قریب ایسے لوگوں کا پتہ چلا کر ان پر ہنگامی طور پر پابندی عائد کی ہے جن کے بارے میں یہ رپورٹس موصول ہوئی تھیں کہ وہ مبینہ طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
’ہم سمجھتے ہیں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ طور پر تعاون کی ضرورت ہے۔‘
یاد رہے کہ ترکی کی جانب سے یہ بیان برطانوی پولیس افسران کے ترکی پہنچنے کے بعد سامنے آیا ہے تاہم یہ ٹیم ترکی میں کیا کردار ادا کرے گی یہ ابھی معلوم نہیں ہو سکا۔
سکاٹ لینڈ یارڈ نے بتایا ہے کہ ’ افسران، ترک حکام جو ہماری تحقیقات میں اہم معاونت فراہم کر رہے ہیں کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں۔‘
برطانوی سکیورٹی ایجنسیاں پہلی ہی تنقید کی زد میں ہیں کیونکہ ترکی پہنچنے والی طالبہ شمیمہ نے برطانیہ چھوڑنے سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اقصیٰ محبوب کو پیغام بھیجا تھا۔ یہ وہی اقصیٰ ہیں جو 2013 میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجو سے شادی کرنے کے لیے گلاسکو سے شام پہنچی تھیں۔
اقصیٰ کے خاندان کے قانونی معاون کا کہنا ہے کہ اقصیٰ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ برطانوی پولیس کی زیرِنگرانی تھا۔
ادھر شام جانے والی تین لڑکیوں کے سکول کے پرنسپل کا کہنا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ یہ لڑکیاں سکول میں بنیاد پرست نظریات کی جانب مائل ہوئیں۔
اس سے قبل تینوں لڑکیوں کے اہلِ خانہ نے ان سے گھر واپسی کی اپیل کی۔