ماہر نفسیات وکٹرفرنکل لکھتے ہیں کہ انسان کے لیے اس کی زندگی کبھی بھی حالات کی وجہ سے ناقابل برداشت نہیں بن سکتی ہے لیکن، اگر زندگی میں معنی اور مقاصد کی کمی ہے تو ایسا ضرور ہو سکتا ہے۔
اگرچہ بہت سے لوگوں کے اہداف زندگی میں خوش رہنا اور اسے مقصدیت کے ساتھ گزارنا دونوں اہم ہوتے ہیں لیک
ن کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ خوش رہنے سے زندگی میں مقصدیت بھی حاصل ہو جاتی ہے یا پھر ایک بامقصد زندگی دراصل انسان کی زندگی میں خوشیاں لے کر آتی ہے، اس پیچیدہ سوال کیجواب میں ماہرین نیجو نظریہ پیش کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی زندگی میں ان دونوں کا مطلب ہمیشہ ایک جیسا نہیں ہوتا ہے۔
ایک حالیہ تحقیق کے نتیجے سے ماہرین نفسیات نے اخذ کیا ہے کہ ہماری زندگی میں کئی مقاصد بہت اہم ہیں مثلا فلاحی کاموں میں حصہ لینا یا اپنے بچوں کی پرورش کرنا لیکن ان سے ہماری روزمرہ کی خوشیوں میں اضافے کا امکان کم ہوتا ہے جبکہ اکثر خوشی اور بامعنی زندگی کے احساس کو ایک جیسا سمجھا جاتا ہے لیکن ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ دونوں احساسات ایک دوسرے سے مکمل طور پرجدا بھی ہو سکتے ہیں۔
سائنسی جریدے ‘جرنل پازیٹیو سائیکلولوجی’ میں شائع ہونے والی تحقیق میں محققین نے ایک بامعنی زندگی اور خوش و خرم زندگی کے درمیان اہم اختلافات کے حوالے سے وضاحت پیش کی ہے۔
مطالعے میں محقق رائے نے ۴۰۰امریکی بالغان کے ایک سروے کا تجزیہ کیا ہے جس میں لوگوں کی عمومی طرز زندگی خوش رہنے اور زندگی کے مقاصد کیحوالے سے اطمینان کی شرح کا جائزہ لیا ہے۔
نتیجے سے اس خیال کی توثیق ہوئی کہ لوگ مقصدیت سے بھری زندگی کے احساس کے ساتھ خوش تھے جب کہ اس سوال پر کہ زندگی میں کیسے خوش رہا جاسکتا ہے اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ انھیں روزمرہ زندگی کے معمولات سے بچنے میں اور چھٹیوں کے دن گزارنے سے خوشی ملتی ہے لیکن دوسری جانب روزمرہ کے گھریلو کاموں، فون پر بات چیت اور دیگر معمولات زندگی کی انجام دہی کرنے سے خوش رہنے کا امکان کم نظر آیا۔
علاوہ ازیں یہ وضاحت بھی ہوئی کہ جن چیزوں سے ہمیں خوشی ملتی ہے ضروری نہیں تھا کہ وہ ہماری زندگی کے مقاصد کو بھی پورا کرتی ہیں اسی طرح زندگی میں معنویت تلاش کر لینے سے روزمرہ کی زندگی میں خوشیاں حاصل نہیں کی جا سکتی ہیں۔
تجزیہ سے معلوم ہوا کہ روزمرہ زندگی میں آسانی، آرام دہ اور پر سہولت زندگی کے ساتھ لوگوں کی زندگی کی خوشیوں کا مضبوط تعلق تھا اسی طرح خوش رہنے کا تعلق اچھی صحت کے ساتھ بھی نظر آیا۔
مقبول قول ہے کہ ‘پیسے سے خوشیاں نہیں خریدی جاسکتی ہیں’ تاہم اس کے برعکس تحقیق سے پتہ چلا کہ پیسے سے خوشیوں کو خریدا جا سکتا ہے اور دولت کے کافی ہونے سے زندگی کی ضروریات اور راحت کے سامان کا انتظام کیا جا سکتا ہے جس کا انسان کی خوشیوں کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے جیسا کہ ایک حالیہ مطالعے میں ظاہر ہوا تھا کہ دولت مند ممالک میں لوگ زیادہ خوش ہوتے ہیں جبکہ انھوں نے اپنی زندگی کے بہت سے مقاصد نہیں بنائے ہوتے ہیں۔
محقق روئے نے بتایا کہ غریب ملکوں کے لوگوں کی زندگیاں زیادہ مقصدیت سے بھری تھیں مثلاً ممکن تھا کہ زیادہ بچوں کی پرورش کرنا اور مذہبی عقائد یا دوسروں لوگوں کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات جیسی وجوہات کی وجہ سے ان کی زندگی میں زیادہ معنویت سے بھری تھی۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ ہماری تحقیق میں اس مفروضے کے برعکس کہ دولت سے خوشیاں نہیں خریدی جا سکتی ہیں یہ ثابت ہوا ہے کہ دولت سے زندگی کے مقاصد نہیں خریدے جا سکتے ہیں۔
محققین نے کہا کہ دوسروں کے ساتھ بہتر تعلقات میں رہنے سے ہم خوشی اور زندگی کے مقصدیت کو زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں۔
اسی طرح دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے سیخوشی میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس کا زندگی کی مقصدیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس کے برعکس اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارنے کا زندگی کی مقصدیت کے ساتھ تعلق ہے اور بہت زیادہ خوش ہونے کے ساتھ نہیں ہے۔
محقق روئے باؤ مایسٹر کہتے ہیں کہ خالص خوشی وہ ہوتی ہے جو ہمیں اپنی خواہشات کو پا لینے سے حاصل ہوتی ہے جو ہمیں اس کے برعکس ایک معنویت کے ساتھ زندگی کا مطلب جدوجہد اور قربانیوں کے ساتھ ہے، اس سییہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک اعلی مقصدیت سے بھری زندگی کا مطلب ہمیشہ خوشیوں بھری زندگی نہیں ہوتا ہے کیونکہ بامعنی زندگی روزمرہ زندگی کی خوشیوں میں اضافے کی ضمانت نہیں ہے۔