امریکی صدر براک اوباما کے عراق اور شام میں سخت گیر جنگجو گروپ داعش کے خلاف اتحاد کے لیے خصوصی ایلچی جنرل جان ایلن نے دعویٰ کیا ہے کہ اعتدال پسند شامی جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد داعش کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے اور یہ تعداد امریکی حکام کی توقع سے بھی بڑھ کر ہے۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے روبرو بیان دیتے ہوئے ریٹائرڈ جنرل جان ایلن نے یہ دعویٰ بھ
ی کیا ہے کہ عراق میں اتحادی ممالک کے لڑاکا طیاروں کے فضائی حملوں نے داعش کی کمر توڑ دی ہے اور وہ اب آزادانہ نقل وحرکت کے قابل نہیں رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ”داعش کے خلاف جنگ کے خواہاں شامیوں کی تعداد ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر ہے اور یہ بہت ہی حوصلہ افزا بات ہے”۔انھوں نے کمیٹی کو بتایا کہ عراق میں داعش پر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے لڑاکا طیاروں نے ڈھائی ہزار سے زیادہ فضائی حملے کیے ہیں جس سے اس کی حربی اور لاجسٹیکل صلاحیتیں تباہ ہو کر رہ گئی ہیں اور اب اس کے محفوظ ٹھکانے بھی نہیں رہے ہیں۔
انھوں نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ ”داعش کے جنگجو عراق میں موجود اپنی نصف قیادت سے محروم ہوچکے ہیں اور ان کے یہ قائدین فضائی حملوں میں مارے جاچکے ہیں۔اب وہ ایک فعال قوت کے طور پر مجتمع ہونے ،نقل وحرکت اور ابلاغ کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔فضائی مہم نے داعش کے ”ہوا” کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے”۔
واضح رہے کہ امریکا نے داعش کے خلاف لڑائی کے لیے ہر سال قریباً پانچ ہزار شامی جنگجوؤں کو تربیت دینے کا منصوبہ بنایا ہے اور انھیں تین سال تک شام سے باہر مقامات پر جنگی تربیت دی جائے گی۔امریکی حکام نے اگلے روز کہا تھا کہ تربیت پانے والے ممکنہ شامی جنگجوؤں کی”شناخت” کر لی گئی ہے اور بہت جلد تربیتی عمل کا آغاز کردیا جائے گا۔
سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی جان ایلن اور دوسرے امریکی عہدے داروں سے داعش کے خلاف جنگی مہم کے حوالے سے بریفنگ لے رہی ہے جس کی بنیاد پر کانگریس صدر براک اوباما کی جانب سے داعش کے خلاف تین سال کے لیے فوجی قوت کے استعمال کی اجازت دینے سے متعلق درخواست کا جائزہ لے گی اور پھر اس کی منظوری پر غور کرے گی۔
تاہم یہ کہا جارہا ہے کہ کانگریس میں خود صدر اوباما کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان ان کی درخواست کی مخالفت کرسکتے ہیں کیونکہ ان کا مؤقف ہے کہ اس طرح امریکا ایک اور طویل جنگ میں الجھ کررہ جائے گا۔حزب اختلاف ری پبلکن پارٹی کے ارکان کو اپنے طور پر یہ تشویش لاحق ہے کہ اس درخواست میں کمانڈروں کو داعش کو شکست دینے کے لیے کافی اختیارات نہیں سونپے گئے ہیں۔