حساس مقامات کے گرد ڈرونز نظر آنے سے پیرس کے حکام میں تشویش پائی جاتی ہے
فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسطی علاقے میں اہم عمارتوں کے اوپر الجزیرہ کے تین صحافیوں کو مبینہ طور پر ڈرون اڑانے پر حراست میں لیاگیا ہے۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ دو روز سے جاری پیرس کی عمارتوں پر پراسرار ڈرونز کی پروازوں اور الجزیرہ کے صحافیوں کی گرفتاری میں کوئی لنک نہیں ہے۔
الجزیرہ کا کہنا ہے کہ ان کے یہ تین صحافی پیرس کے وسطی علاقے میں اہم عمارتوں کے اوپر لگاتار دوسری رات پراسرار ڈرونز کی پروازوں پر پروگرام کے حوالے سے فلمنگ کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط
ی علاقے میں اہم عمارتوں کے اوپر لگاتار دوسری رات پراسرار ڈرونز نے پروازیں کیں۔
فرانسیسی پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ انھیں کون چلا رہا ہے اور کہاں سے چلایا جا رہا ہے۔
فرانسیسی میڈیا کے مطابق منگل کی شب گیارہ بجے سے بدھ کی شب دو بجے تک پولیس اور عوام نے پانچ بار ڈرونز کو دیکھا ہے۔
خیال رہے کہ پیرس کے فضائی حدود میں رات کو پرواز غیر قانونی ہے۔
ان میں سے تین ڈرون انویلائڈز ملیٹری میوزیم اور پلیس ڈی لا کنکورڈ کے پاس نظر آئے جبکہ دو پرانے شہر کے دروازے کے پاس نظر آئے۔
ایفل ٹاور کے اوپر بھی ڈرون نظر آیا تھا
انھیں علاقوں میں پانچ ڈرون گذشتہ رات بھی نظر آئے تھے۔ ان میں سے بعض کو ایفل ٹاور اور پلیس ڈی لا کنکورڈ کے پاس امریکی سفارت خانے کے اوپر بھی اڑتا دیکھا گیا تھا۔
واضح رہے کہ بعض حالیہ ڈرون پروازوں کی فلم بندی کی گئی ہے اور اس معاملے کی تحقیقات 10 رکنی ٹیم کرے گی جسے پہلی بار ڈرون نظر آنے کے بعد قائم کیا گیا تھا۔
آخری بار ڈرونز کو وسطی پیرس کے گرد شمال میں پورٹ دا کلگناکورٹ اور جنوب مغرب میں پورٹ دا سینٹ کلاؤڈ کے گرد دیکھا گیا۔
چھوٹے ڈرونز زیادہ مہنگے نہیں ہوتے اور آسانی سے خریدے جا سکتے ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں اہم اور حساس مقامات پر ان کے دیکھے جانے سے فرانسیسی حکام کی تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے۔
حال میں نظر آنے والے ڈرونز ملیٹری میوزیم کے اوپر بھی نظر آئے تھے
گذشتہ ماہ ایک ڈرون صدر فرانسوا اولاند کی رہائش ایلسی پیلس پر نظر آیا تھا اور اکتوبر میں ملک بھر میں جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
مرکزی پیرس کے اوپر 6000 میٹر تک کی بلندی سے نیچے پرواز ممنوع ہے۔
خیال رہے کہ ڈرونز سے بہتر کوالیٹی کی فلم حاصل کی جا سکتی ہے لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ ان سے سکیورٹی کو کوئی خطرہ لاحق ہے یا پھر یہ صرف بعض جوشیلے افراد کا کام ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکام سکیورٹی سے زیادہ اس بات سے پریشان ہیں کہ اس کے ذریعے کسی سیاسی رہنما کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔