اسلامی جہاد کے جنگجوؤں نے زیرِ زمین میں راکٹ لانچر چھپا رکھے ہیں
جنوب کی جانب غزہ کی پٹی کے ساتھ ماکانت کے قریب ہی زیتون کے کھیتوں کے بیچ کھلی زمین میں اسرائیل کے لیے ایک خوفناک نظارہ ہے۔
ایک گہرے کھڈے میں 120 ایم ایم کی مارٹر ٹیوب اور عسکریت پسسند گروہ فلسطینین اسلامک جہاد کے تین جنگجو موجود ہیں۔
جنگی عزائم سے بھرپور ان تمام آدمیوں نے سروس پر ٹارچز باندھ رکھی ہیں۔ وہ تیزی سے حرکت کرتے ہوئے مارٹر ٹیوب میں بارودی مواد بھرتے ہیں۔
یہ قفل اسراییل کے خلاف ان کی اگلی جنگ کی تیاری ظاہر کرتا ہے کہ یہ وہ جنگ ہے جس کے بارے میں ان جنگجوؤں اور سرحد کے اس پار اسرائیل فوج دونوں کا ہی خیال ہے کہ جلد ہوگی۔
مارٹر سے لیس یہ خفیہ گڑھا اسرائیلی سرحد کے بالکل ساتھ ہے، مجھے ایسا ہی بتایا گیا تھا۔
میں اس بارے میں مکمل طور پر پر یقین نہیں کیونکہ مسلح جنگجو میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر مجھے وہاں لے گئے تھے۔ اس سے پہلے انھوں نے میرے تلاشی لی کہ کہیں میرے پاش کوئی ٹریکنگ کا آلہ تو نہیں اور انھوں نے سفر کے آغاز سے قبل میرا موبائل فون بھی لے لیا۔
اسرائیل کی تباہی کا عزم لیے ہوئے اس اسلامک جہاد نامی تنظیم کو مغرب میں دہشتت گرد تنظیم قرار دیا جاتا ہے۔
اس گڑھے میں کے پست پر ایک پردہ جسے ہٹانے پر ایک سرنگ کا دہانا سامنے آتا ہے۔ موڑ مرتے ہی یہ راستہ بڑا اور گہرا تقریباً 20 میٹر تک ہو جاتا ہے۔
ان سرنگوں کے اندر فلسطینی جنگجو بہت تیزی سے آ جا سکتے ہیں
اس کی دیواریں اور خم دار چھت کنکریٹ سے مضبوط بنائی گئی ہے۔ اس سرنگ کی اونچائی اسلامک جہاد کے جنگجوؤں کے کھڑے ہونے اور بھاگنے کے لیے کافی ہے۔
یہ ان کے لیے فرار کا راستہ ہے۔ یہاں سے سینکڑوں میٹر بھاگنے پر نکلنے کا راستہ آتا ہے، یا راستے آتے ہیں۔
بہترین انداز میں بنائی گئی ان دیواروں پر روشنی منعکس ہوتی ہے۔ گاڑی کی بیٹری سے جلائی گئی بتیوں سے پوری سرنگ روشن ہوتی ہے۔ سرنگ میں ہوا ٹھنڈی ہے۔
چہرہ چھپائے ابو حمزہ نامی ایک جنگجو کا کہنا تھا ’پچھلی جنگ مںیں ہم نے دیکھا کہ زمین پر چلنے والی ہر چیز پر بمباری کی گئی چاہے وہ ایمبولینس تھی، شہری یا جنگجو تھے۔‘
’اس لیے ہم نے صیہونی دشمن کی آنکھوں سے اوجھل رہنے کے لیے یہ جگہیں بنائی جہاں سے ہم ان پر مارٹر اور میزائل داغیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ سرنگ پچھلی جنگ میں بھی استعمال کی گئی اورآئندہ بھی استعمال کی جائے گی۔
غزہ میں حکومت کرنے والی جماعت حماس فلسطینی حکام کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران اسلامک جہاد اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتی ہے۔
گذشتہ برس گرمیوں میں ہونے والی جنگ میں اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ کے 2200 باشندے اور کے قریب 70 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔
غزہ کے گرد و نواح کا ایک بڑا حصہ تباہ ہو گیا اور غزہ کی پٹی انسانی بحران کا شکار ہے جہاں ہزاروں لوگ بےگھر ہیں۔
چھ ماہ گذر جانے کے بعد بھی زیادہ تر عماارتوں کا ملبہ ابھی تک وہیں ہے اور بہت کم تعمیرِ نو ہوئی ہے۔
اسرائیل کے خدشات:
اسلامی جہاد کے جنگجو حالیہ دنوں میں لڑائی کی تیاریاں کرتے رہے ہیں
سرحد کے اس پار اسرائیلی آبادیوں کو راکٹ اور مارٹر حملوں کی صورت میں ردِ عمل کی تیاری کروائی گئی ہے۔ لیکن وہ زیادہ خوفزدہ ان سرنگوں سے ہیں جو حماس اور اسلامک جہاد نے ان کی سرحد باڑ کے نیچے سے بنا لی ہیں۔
اب تک تقریباً 32 سرنگیں دریافت ہو چکی ہیں جبکہ خیال ہے کہ غزہ میں ایسی سینکڑوں اور ہیں۔
اسرائیلی وزیرے اعظم بنیامن نتن یاہو نے وعدہ کیا ہے کہ سرحد سے گزرنے والی ان سرنگوں کو تباہ کیا جائے گا لیکن بظاہر خطرہ کم ہوا لیکن ختم نہیں ہوا۔
غزہ کی جنگ آسمانوں میں لڑی گئیئ ایسی جنگ جو اسرائیل کے جنگی جہازوں اور گولہ بارود اور جنگجوؤں کے راکٹوں اور مارٹرز کے درمیان ہوئی۔
لیکن یہ ایک زیرِ زمین جنگ بھی تھی۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے سرنگوں کے اس قدر استعمال کے لیے اسرائیل تیار نہیں تھا۔
جنوبی غزہ کے لیے اسرائیلی دفاعی فورسز کے کمانڈر کرنل ڈاڈو کے مطابق ’ان سرنگوں کا مقصد امن نہیں بلکہ شہریوں پر حملے کرنا، اور فوجیوں کو اغوا کرنا ہے۔‘
’ہم اس بارے میں فکر مند ہیں اور اس مسئلے کے حل کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ اسرائیل اس کے لیے کیا کر رہا ہے۔ خیال ہے کہ سرنگوں کا سراغ لگانے کے لیے بہتر آلات کا استعمال کر رہا ہے۔
غزہ کے مغربی سرحد پر ایک دوسری جنگ جاری ہے۔ قریباً روزانہ ہی یہاں دھماکوں کی آوازیں آتی ہیں جہاں مصری فوج غزہ کے ساتھ بفر زون کو ایک کلومیٹر کے فاصلے تک پھیلانے کی کوششوں میں ہے۔
اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ کے نتیجے میں اسرائیل پر راکٹوں کے حملے ہوتے رہے جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں بڑے پیمانے پر کارروائی کی جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی
مصری فوجی ادھر اُدھر بکتر بند گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور سرحد پر کنٹرول مزید سخت کر دیا گیا اور دھماکہ خیز مواد استعمال کر کے گھروں اور سمگلنگ کی سرنگوں کو تباہ کر رہے ہیں جو غزہ کی زندگی کے لیے اہم ترین ہیں۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے حماس پر الزام عائد کیا کہ وہ سینا میں حملوں میں مدد دے رہی ہے اور غزہ کو اس کے نتیجے میں ایک کونے میں دھکیلا جا رہا ہے اور پہلے سے زیادہ اسے تنہا کیا جا رہا ہے۔
غزہ شہر میں حالیہ دنوں میں مصر کے خلاف مظاہرے ہوئے جن میں مظاہرین نے مصر کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا۔
عام عوام کے سامنے اسلامی جہاد اس حوالے سے مصر کے جارحانہ رویے کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔
ابو عبداللہ ایک اور جہادی جنگجو نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ مصر کا کردار اس تنازعے میں فلسطین کے مقصد کے لیے معاون تھا۔‘
جب میں نے ایک اور جنگجو سے پوچھا کہ اگلی جنگ کب شروع ہو گی تو انہوں نے مزاقاً جواب دیا کہ ’مصر سے یا اسرائیل سے؟‘
اسلامی جہاد کے جنگجو نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ایک اور جنگ نہیں رک سکتی۔
مگر انہوں نے 145 ساتھی جنگجو گذشتہ جنگ کے دوران کھوئے مزید سویلین ہلاک ہوئے تو اس سے کیا حاصل ہوا؟
ان سرنگوں میں صرف جنگجو ہی نہیں بلکہ اسلحہ کی نقل و حرکت بھی ہو سکتی ہے
ابو ابراہیم جو القدس بریگیڈ کے کمانڈر ہیں نے جواب دیا کہ ’ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ ہم نے ثابت قدمی دکھائی اور ہم نے قابض کو چیلنج کیا۔ پوری دنیا کے برعکس ہم انہیں اب بھی نہ کہہ سکتے ہیں ان کے قبضے کو ہم اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘
اسرائیل کی سرحد کے ساتھ نسبتاً خاموشی ہے اور چھ مہینے کی جنگ بندی پر عمل ہو رہا ہے مگر کرنل دادو اسلامی جہاد کے جنگجوؤں کی طرح سرحد کے اس پار پر امید نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنی جانب سرنگیں کھود رہے ہیں اور اپنے آپ کو اگلی لڑائی کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ ہم بھی ایسا ہی کر رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ایسا آج سے بہت عرصے بعد ہو گا مگر میں یقین سے اس کے بارے میں نہیں کہہ سکتا۔‘
تو میں نے پوچھا کہ جلدی یا بدیر؟
کرنل نے اس پر جواب دیا ’بدقسمتی سے۔‘