لکھنؤ۔(نامہ نگار)۔ دن ہاڑے ہوئے تین بے گناہوں کا قتل اور ۵۶ لاکھ کی لوٹ کی واردات کو انجام دینے والے نوعمر لڑکے تھے۔ انہوں نے واردات کیلئے سیاہ رنگ کی پلسر موٹر سائیکل کا استعمال کیا۔ موٹر سائیکل سے آگے والی نمبر پلیٹ غائب تھی۔ پیچھے بیٹھے بدمعاش نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا اور پیٹھ پر ایک چھوٹا سا بیگ ٹانگے ہوئے تھا جبکہ موٹرسائیکل چلا رہے بدمعاش نے نیلے رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی اور چہرے کورومال سے ڈھکے ہوئے تھا۔ پولیس اب بدمعاشوں کے حلیے کی بنیادپر ان کی تلاش میں مصروف ہے۔ اس پوری واردات کے کچھ چشم دید گواہ بھی پول
یس کو ملے ہیں۔ اے ٹی ایم مشین کے پاس ہی ایک گھر کی چھت پر کھڑا نوجوان پوری واردات ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور بدمعاشوں کا فوٹو بھی اپنے موبائل سے کھینچا اور ویڈیو بھی بنایا۔اس کے علاوہ چھت پر کھڑی ایک لڑکی نے بھی اپنے موبائل سے بدمعاشوں کی فوٹو کھینچی ہے ۔اس کے علاوہ کیش کمپنی کا کسٹوڈین ادیئے، ڈرائیور شیلندر اور اے ٹی ایم مشین کا گارڈ آلوک چندر کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے پوری واردات کو اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا۔
اسکارپیو سوار ساتھیوں کو دیا کیش باکس:- کیش سکیورٹی کمپنی کے تین ملازمین کاقتل اور لاکھوں کی لوٹ کی واردات کو انجام دینے میں صرف موٹر سائیکل سوار دو بدمعاش ہی نہیں شامل تھے ۔ موٹر سائیکل سوار دوبدمعاشوں کے ساتھی بیک اپ میں موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق اے ٹی ایم سے کیش باکس لوٹنے کے بعد موٹر سائیکل سوار بدمعاش موٹر سائیکل لیکر منکا میشور مندر کی طرف بھاگے۔اس کے بعد بدمعاشوں نے اسکارپیو سوار اپنے ساتھیوں کو کیش باکس پکڑا دیا اور پھر سبھی لوگ الگ الگ طرف بھاگ نکلے۔
پولیس کے علاوہ ایس ٹی ایف ٹیم بھی پردہ فاش کرنے میں مصروف:- دارالحکومت میں شاید یہ پہلی بار ہے جب دن دہاڑے تین لوگوں کا سر راہ قتل کر کے ۵۶ لاکھ کی لوٹ کو انجام دیا گیا ہے۔ ابھی تک تین لوگوں کاقتل کر کے لوٹ کی واردات شاید ہی شہر میں کبھی ہوئی تھی۔ اس قتل اور لوٹ کے انکشاف کیلئے گومتی پار علاقہ کی فورس، کرائم برانچ، سرویلانس سیل، سائبر کرائم سیل کے علاوہ ایس ٹی ایف کو بھی لگایا گیا ہے۔ ایس ٹی ایف کے سی او آلوک سنگھ کی ایک ٹیم بھی موقع واردات پر پہنچی اور تفتیش کی۔ وہیں فورینسک ٹیم کو بھی اے ٹی ایم مشین سے چند انگلیوں کے نشان ملے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بدمعاشوں نے قتل کیلئے ۹؍ایم ایم کی پستول کا استعمال کیا ہے۔اس طرح کی پستول بڑے آرام سے بہار کے مونگیر سے لائی جاتی ہے اور اب زیادہ تر پیشہ ور بدمعاشوں کے پاس اس طرح کی پستول مل جاتی ہے۔
پولیس کے سارے آپریشن ہوئے ناکام :- ۵۶ لاکھ کی لوٹ اور تین لوگوں کا سر راہ بے رحمی سے قتل سے شہر کی پولیس کو کٹھہرے میں لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ روز شہر میں آپریشن آل آؤٹ ،فلیش آؤٹ اور چوراہا کلین چلایا جا رہا ہے اس کے بعد بھی بدمعاش دن دہاڑے واردات کو انجام دے کر بھاگ نکلے اور شہر کی ہائی ٹیک پولیسنگ دھری کی دھری رہ گئی۔ بدمعاش جس راستے سے آئے تھے وہاں پر دو جگہ پولیس کی ڈیوٹی بھی رہتی ہے۔ ڈالی گنج پولیس سے پہلے وزیر گنج پولیس کے لوگ موجود رہتے ہیں اس کے بعد ڈالی گنج پل ختم ہوتے ہی حسن گنج پولیس کے لوگ دن میں ڈیوٹی پر تعینات رہتے ہیں۔ دونوں تھانہ کی پولیس کی موجودگی کے بعد بھی لٹیروں میں پولیس کا ذرا سا بھی خوف نہیں تھا۔ لٹیرے بڑی آرام سے کیش وین کا پیچھا کرتے ہوئے آئے اور واردات کو انجام دے کر فرار ہو گئے۔
فل پروف پلاننگ سے کی گئی پوری واردات:- قتل و لوٹ کے معاملہ میں تفتیش کر رہی پولیس اس واردات کے پیچھے پیشہ ور لٹیروں کا ہاتھ مان رہی ہے۔ کیش ملازمین کا قتل اور لاکھوںکی لوٹ کی واردات کو اچانک ہی نہیں انجام دیا گیا۔ لٹیروں نے اس کیلئے پہلے سے پورا ہوم ورک کر رکھا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس بات کی بھی پوری امید ہے کہ لٹیروں نے کیش وین کی پوری ریکی کر رکھی تھی۔ وین کب اور کہاں سے کیش لیتی ہے ،کس کس راستے سے ہوتے ہوئے جاتی ہے اور یہاں تک کہ انہوں نے بابو گنج واقع ایچ ڈی ایف سی بینک کے اے ٹی ایم کو اپنا نشانہ بنایا۔ امید اس بات کی بھی ہے کہ موٹر سائیکل سوار لٹیرے یا تو وین کا پیچھا حضرت گنج علاقہ سے کر رہے تھے یا پھر وہ لوگ ڈالی گنج پل سے ہی وین کے پیچھے لگے تھے۔اس بات کو جاننے کیلئے پولیس کی ایک ٹیم جواہر بھون واقع ایچ ڈی ایف سی بینک کے نزدیک لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی تفتیش کر رہی ہے۔ اے ٹی ایم سکیورٹی وین سے لوٹ کی واردات کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ پہلے بھی غازی پور تھانہ کے ایچ ایل کے نزدیک پنجاب نیشنل بینک کے باہر بارہ بنکی کے رہنے والے سونو کنجڑ اور اس کے ساتھیوں نے فائرنگ کرتے ہوئے لاکھوںکی لوٹ کی واردات کو انجام دیا تھا۔ ابھی دسمبر ماہ میں گورنر ہاؤس کے نزدیک ایکسس بینک سے ایک پرائیویٹ کمپنی کے منشی سے بھی سونو کنجڑ کے گروہ نے اٹھارہ لاکھ روپئے کی لوٹ کی واردات کو انجام دیا تھا۔ پولیس نے اس معاملہ میں دو بدمعاشوں کو گرفتار بھی کیا تھا لیکن سونو کنجڑ اب تک ہاتھ نہیں لگ سکا ہے۔
سونو کنجڑ اور للی تیشور گروہ پر ہے شک:- بارہ بنکی کے رہنے والے سونو کنجڑ کے علاوہ دوسرا شک ملیح آباد کے رہنے والے شاطر لٹیرے للی تیشور گروہ پر ہے۔ ملیح آباد کے رہنے والے للی تیشور گروہ لوٹ کی درجنوں وارداتوں کو انجام دے چکاہے۔ للی تیشور گروہ ہی ایک ایسا گروہ ہے جو لوٹ کی واردات میں گولی چلانے میں ماہر ہے۔ للی تیشور گروہ نے نہ صرف لکھنؤ بلکہ آس پاس کے اضلاع میں بھی کئی لوٹ کی ایسی واردات انجام دی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک للی تیشور اور اس کے گروہ کے لوگ جیل میں بند تھے۔ اب وہ لوگ ضمانت پر باہر ہیں یا پھر جیل میں ہیں اس بات کا پتہ پولیس لگا رہی ہے۔
واردات نے پولیس ہفتہ میں بھی ڈالا خلل:- حسن گنج علاقہ میں جہاں ایک طرف دن دہاڑے بدمعاشوںنے تین لوگوں کا قتل کر کے ۶۵ لاکھ روپئے لوٹ لئے وہیں موقع واردات سے محض دو کلو میٹر کی دوری پر پوری ریاست کے آئی پی ایس افسران اور ڈی جی پی پولیس ہفتہ کے موقع پر جمع ہوئے ہیں۔ بدمعاشوں نے اس سنسنی خیز واردات کو انجام دے کر راجدھانی پولیس کو کھلا چیلنج دیا ہے۔ حسن گنج کے بابو گنج علاقہ میں تہرے قتل کیس اور لاکھوں کی لوٹ کی خبرجب آئی پی ایس افسران کوملی تو وہ بھی حیران رہ گئے۔ پولیس ہفتہ میں راجدھانی کے آئی جی ذکی احمد، ڈی آئی جی آر کے چترویدی اور ایس ایس پی یشسوی یادو بھی موجود تھے۔ تینوں افسران کے کانوں میں جب اتنی بڑی واردات کی خبر پہنچی تو تینوں افسران حیران رہ گئے۔ سب سے پہلے ایس ایس پی یشسوی یادو فون پر بات کرتے ہوئے ریڈیو ہیڈکوارٹر جلسہ گاہ سے باہر نکلے۔ ایس ایس پی نے ایس پی گومتی پار اور دیگر افسران سے فون پر بات کی اور پھر اجلاس چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے۔ اس کے بعد آئی جی اور ڈی آئی جی بھی اجلاس کو درمیان میں ہی چھوڑ کر موقع واردات پر پہنچ گئے۔ جس وقت یہ پوری واردات ہوئی اس وقت ریاستی پولیس کے افسران اور ڈی جی پی اے کے جین کمیونٹی پولیسنگ اور غازی آباد پولیس کے آپریشن اسمائل پر تذکرہ کر رہے تھے۔
واردات کے بعد پولیس نے بند کر دیا راستہ:- ڈالی گنج کے بابو گنج علاقہ میں تین لوگوں کا قتل اور لاکھوں کی لوٹ کے بعد پولیس نے دونوں طرف کا ٹریفک بند کر دیا۔ ایک لمحہ میں پوری واردات آگ کی طرح علاقہ میں پھیل گئی ۔ لوگوں کی بھیڑ موقع پر جمع ہو گئی۔ ہر کوئی واردات کو لیکر حیران تھا۔ لوگوں میں بس ایک ہی بات پر تذکرہ ہو رہا تھا کہ بابو گنج جیسی بھیڑ والی جگہ جب عام آدمی کیلئے محفوظ نہیں ہے تو بقیہ جگہوں پر کیا ہوگا۔ وہیں لوگ لٹیروں کی گولی کا شکار ہوئے تین بے گناہ ملازمین کے کنبہ کو لیکر بھی تذکرہ کر رہے تھے۔ گارڈ ارون کمار آبائی طور پر سیتاپور کا رہنے والا تھا اورشیو نگر کھدرا میں اپنی اہلیہ شیو کماری، بیٹے شیو شرن سنگھ اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ بیٹے شیو شرن سنگھ نے بتایا کہ اس کے والد یومیہ کی طرح اپنی ڈیوٹی پر نکلے تھے۔ والد کی موت کی خبر جب اس کو ملی تو وہ بدحواس ہو گیا۔ مرچری پر موجود شیو شرن سنگھ بار بار سست پولیسنگ کو اس واردات کا ذمہ دار بتارہا تھا۔ کچھ ایسا ہی حال کسٹوڈین انل سنگھ کے کنبہ والوں کا بھی ہے ۔ سیتاپور کے رہنے والے انل مڑیاؤں کے فیض اللہ گنج میں اپنی اہلیہ رینا، دو معصوم بچے اور بزرگ والدہ ہیں۔ کنبہ کو جب انل کے قتل کی خبر معلوم ہوئی تو گھر میں کہرام مچ گیا۔