پرتھ۔ مسلسل تین جیت سے حوصلہ سے بھری ہندوستانی کرکٹ ٹیم آئی سی سی کرکٹ عالمی کپ میں کل یہاں اپنے چوتھے لیگ میچ میں غیر مستحکم کارکردگی کرنے والی ہے لیکن خطرناک ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے خلاف اپنی فتح کوبرقرار رکھنے کیلئے اترے گی۔ہندوستان نے دیرینہ حریف پاکستان، مضبوط جنوبی افریقہ اور کمزور متحدہ عرب امارات کے خلاف بڑی جیت درج کی۔ اس سے وہ گروپ بی کی پوائنٹ ٹیبل میں چوٹی پر بنا ہوا ہے۔ہندوستان اس میچ میں یہی امید کر رہا ہوگا کہ نائب کپتان اور ٹیم کے اہم بلے باز وراٹ کوہلی کو لے کر اٹھا تنازعہ ٹیم پراثر نہیں کرے گا۔ہندوستان
اور ویسٹ انڈیز کے درمیان میچ کافی دلچسپ ہوتا ہے لیکن کیریبین ٹیم عالمی کپ میں اصل میں ہندوستان کے خلاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائی ہے۔ اس نے اس ٹورنامنٹ میں ہندوستان پر آخری فتح 1992 میں ویلنگٹن میں درج کی تھی۔موجودہ فارم اور کاغذوں پر بھی ویسٹ انڈیز کی ٹیم ہندوستان کے سامنے کمزور نظر آتی ہے۔ ہندوستان نے اب تک تینوں میچوں میں پیشہ ورانہ کھیل کا شاندار نمونہ پیش کیا ہے۔پہلے تین میچوں میں ہندوستانی ٹاپ آرڈر کے تمام بلے بازوں نے کسی نہ کسی طرح سے اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ گیند بازوں نے اپنی کارکردگی میں بہتری کرکے ناقدین کو کرارا جواب دیا ہے۔ اس سے جیسن ہولڈر کی قیادت والی نوجوان ٹیم کے خلاف ہندوستان کو جیت کا مضبوط دعویدار مانا جا رہا ہے۔کوہلی اور شکھر دھون نے ٹورنامنٹ کے شروع سے اچھی فارم دکھائی ہے جبکہ سریش رینا نے پاکستان کے خلاف پہلے میچ میں مفید شراکت دی تھی۔ روہت شرما پہلے دو میچ میں نہیں کھیل پائے تھے لیکن متحدہ عرب امارات کے خلاف انہوں نے کریز پر کافی وقت گزارا اور نصف سنچری لگائی۔ ماہر بلے بازوں کی کارکردگی سے دھونی کی فارم جیسے کمزور فریق سے بھی پیچھے چھوٹ گئی۔گیندبازوں میں آف اسپنر روچندرن اشون نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے اب تک آٹھ وکٹ لیے ہیں۔ موہت شرما ہندوستان کیلئے نئی تلاش ہے جبکہ امیش یادو، محمد سمیع اور آدھے فٹ بھونیشور کمار نے بھی اچھی گیند بازی کی ہے۔ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے پاس کرس گیل ہے جس کی وجہ سے دونوں ٹیموں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ جمیکا کا یہ بلے باز پانچ اوور کے اندر پورے میچ کا نقشہ تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔گیل کاطوفان کینبرا میں دیکھنے کو ملا تھا جبکہ انہوں نے زمبابوے کے گیند بازوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا کر ورلڈ کپ کی تاریخ کی پہلی ڈبل سنچری لگائی تھی۔لیکن گیل کے ساتھ سب سے بڑی دقت مسلسل اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پانا ہے اور ہندوستان کے خلاف بڑے میچوں میں ان کا ریکارڈ بھی اچھا نہیں ہے۔ سچائی یہ ہے کہ جنوبی افریقہ اور پاکستان کے خلاف وہ دیر تک نہیں ٹک پائے جبکہ زمبابوے کے خلاف انہوں نے 215 رنز بنائے۔اس لئے گیل کو ہندوستان کے خلاف خود کو ثابت کرنا ہوگا کیونکہ اس سے نہ صرف دھماکہ خیز بلے بازی کی ان کی تصویر زیادہ نکھرے گی بلکہ وہ ویسٹ انڈیز کو ناک آئوٹ کے قریب پہنچانے میں مدد کریں گے۔ گیل کو اگرچہ کچھ ہندوستانی گیند بازوں سے پریشانی رہی ہے اور ان میں بھونیشور اور اشون ہیں۔بھونیشور کی فٹنس شروع سے بہت اچھی نہیں رہی لیکن وہ اپنی گیندوں سے گیل اور بائیں ہاتھ کے دیگر بلے بازوں کو پریشان کرتے ہیں۔ محمد سمیع بھی اب فٹ ہیں اور اب کپتان مہندر سنگھ دھونی کو طے کرنا ہے کہ وہ کسے آخری الیون میں رکھنا چاہتے ہیں۔ بھوی کی سوئنگ اور سمیع کی واکا کی سخت پچ پر زور سے گیندڈالنے کی صلاحیت میں سے کسے ترجیح دی جاتی ہے یہ جمعہ کو ہی پتہ چلے گا۔ گیندباز جو گیل کو پریشانی میں رکھتا ہے وہ اشون ہے۔ گیل ان کی کیرم بال اور آف بریک کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گیل اپنے جگہ پرسے نہیں کھیلتے۔گیل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن ویسٹ انڈیز کے پاس دیگر مفید کھلاڑی بھی ہیں۔ ڈیون اسمتھ اوپر ترتیب میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں لیکن وہ چنئی سپرکنگس کی طرف سے آئی پی ایل میں جیسا انجام ویسٹ انڈیز کی طرف سے نہیں کر پاتے ہیں۔ اسی طرح سے مرلون سیملس بھی مسلسل اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے ہیں۔بلے بازی سے زیادہ بولنگ کیریبین ٹیم کیلئے بڑی فکر ہے جس میںتوازن کی کمی ہے۔ اس کیلئے پانچواں بولر سردرد بنا ہے اور ایسے میں ٹیم کو ڈیون براوو کی بڑی کمی کھل رہی ہے۔براوو چھٹے یا ساتویں نمبر پر بلے بازی کرتا تھا اور ڈیتھ اوورز میں ان کی گیند بازی کی کمی ہولڈر کو بہت زیادہ کھل رہی ہوگی۔ آندرے رسل اور ڈیرین سیمی دونوں بلے بازی آل راؤنڈر ہیں اور لگتا نہیں کہ ان کی گیند بازی اچھی فارم میں چل رہے دھون یا کوہلی کو پریشانی میں ڈال پائے گی۔کپتان ہولڈر کی گیندوں کی تو اے بی ڈی ولیئرس نے بری طرح دھنائی کی تھی۔ انہوں نے تب دس اوورز میں 104 رنز لٹا دیئے تھے۔ مثالی صورتحال یہی ہے کہ کیمار روچ کے ساتھ جیروم ٹیلر نئی گیند سنبھالے۔ جہاں تک ہولڈر کی بات ہے تو اگر وہ کپتان نہیں ہوتے تو ان کیلئے آخری الیون میں جگہ بنانا بھی مشکل ہوتا۔