مقصد حسینی کی ناشر و مبلغ ہیںجناب زینب کبریٰ :ڈاکٹر سراج اجملی٭ سیرت زینب مقصد کربلاکی توسیع ہے:عارف محمد خاں
لکھنؤ یونیورسٹی کے مالویہ ہال میں زینب ڈے کے موقع پر مقررین کا اظہار خیال
ڈاکٹر ہارون رشید
لکھنؤ۔۹؍مارچ۔اسلام میںعورت کو جو مرکزیت اور مقام و احترام حاصل ہے وہ کہیں نہیں۔مسلم خواتین صرف علم و ادب،سائنس و فلسفہ ،سیاست و قانون،صحافت و معیشت میں ہی نہیں نمایاں ہیں بلکہ وہ اپنے کنبہ کی پرورش کے لئے ایک جفا کش مزدور کی طرح کام کرنے اور بوجھ اٹھانے کی بھی اہلیت رکھتی ہیںاور سماج میں ایک مثال قائم کرتی ہیں۔یہ بات اس وقت آئینہ ہو گئی جب عالمی یوم خواتین کے موقع پر اودھ نامہ چیریٹبل ٹرسٹ کی جانب سے لکھنؤ یونیورسٹی کے مالویہ ہال میں جھار کھنڈ،اڑیسہ اور آسام کے گورنر سید سبط رضی کی صدارت میںزینب ڈے منایا گیا اور ان خواتین کو ایوارڈ سے نوازا گیا جنھوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں خدمات انجام دے کر ایک مثال قائم کی ہے انھیںمیں ایک نجمہ خاتون بھی تھیں جو ریلوے پلیٹ فارم پر قلی کا کام کر تی ہیں اور لوگوں کے سامان اٹھا کر اپنا کنبہ چلاتی ہیں۔اودھ نامہ کی جانب سے انھیں بھی اعزاز سے نواز اگیا اور دس ہزار روپیہ نقد دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
اس موقع پر پروگرام کے کنوینر وقار ر ضوی نے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے پروگرام آپ کی محبتوں،نیک جذبوں اور اخلاقی تعاون سے حوصلہ پا کر ہی انعقاد پذیر ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس موقع پر جوایوارڈ دئے جا رہے ہیں وہ ایوارڈ یافتگان کے قد اور وقار میں اضافہ نہیں کرتے ۔کیونکہ ان کا قداس سے کہیں بلند ہے ۔
ہم نے ان خواتین کو صرف اس لئے پیش کیا کہ ہم معاشرے کوبا لخصوص ہندوستانی سماج کو یہ پیغام دے سکیں کہ اسلام نے خواتین کی تعلیم و ترقی کی راہ میں کوئی شرعی پابندی نہیں لگائی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلم خواتین تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں ہم نے ان خواتین کی خدمات کا اعتراف کر کے اس الزام کو غلط ثابت کیا ہے کہ یہ ہیں مسلم خواتین جنھوں نے اپنی محنت اور لگن سے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی نمائندگی سے معاشرے میں اپنا تاثر قائم کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ حضرت زینب کے نام کو کسی خاص عقیدہ یا مذہب کی وجہ سے منتخب نہیں کیا ہے بلکہ زینب کا کردار تاریخ انسانی کاایک عظیم کردار ہے جسے صرف ایک مسلک یا ایک مذہب یا ایک قوم نے نہیں تسلیم کیا بلکہ ان کی عظمت کو ہر قوم کے اہل نظر نے تسلیم کیا ہے۔کیونکہ زینب علامت ہے روشنی کی،زینب علامت ہے انقلا ب کی،زینب علامت ہے جرأت اظہار کی ۔انھوں نے کہا کہ لندن کی ریسرچ اسکالر محترمہ انیتا رائے جو ایک غیر مسلم ہیں انھوںنے حضرت زینب کی عظمت حقیقی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’اسپیشل وومن ‘‘میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کو جب مسجدوں میں اذان کی آواز سنائی دے تو انھیں حضرت زینب کو یاد کرنا چاہئے کیونکہ یہ اذان انھیں کی وجہ سے باقی ہے۔
انیتا رائے کی کتاب کے متعدد اقتباسات بعد میں آنے والے مقررین نے بھی پیش کئے۔ پروفیسر صابرہ حبیب نے پروگرام کی جزوی نظامت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے لکھنؤ یونیورسٹی کے اس مالویہ ہال میں بہت سے پروگراموں میں شرکت کی ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام ہے جو مالویہ ہال میں منایا جارہا ہے۔حضرت زینب کا کردار اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کا وہ عظیم کردار ہے جس کے نقوش پاکو اگر خواتین اپنی راہ عمل بنا لیں تو ان کی زندگی کے تمام مسائل از خود حل ہو جائیں۔انھوں نے اودھ نامہ چیریٹیبل ٹرسٹ اور روزنامہ اودھ نامہ کے ذمہ داروں با لخصوص وقار رضوی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے عالمی یوم خواتین کو حضرت زینب کے نام سے معنون کرکے ایک قابل قدر کام کیا ہے مزید یہ کہ اس دن معاشرے کی ان خواتین کو بھی اعزاز سے نوازا ہے جنھوںنے مختلف شعبہ ہائے حیات میں اہم خدمات انجام دی ہیں۔
جن خواتین کو اعزاز سے نواز گیا ان میں پدم شری پروین طلحہ،ڈاکٹر نزہت حسین کو’’پرائڈ آف وومن ہڈایوارڈ‘‘ڈاکٹر قمر رحمنٰ ،ڈاکٹر قمر جہاں،عائشہ صدیقی،فاطمہ وصیہ جائسی کو ان کی مجموعی خدمات کے اعتراف میںلائف ٹائم اچیو منٹ ایوارڈ دیا گیا۔جب کہ ڈاکٹر صبیحہ انور،ڈاکٹر صبحی نسیم،کلثوم مصطفیٰ ، ڈاکٹر فہمیدہ سردار،ڈاکٹر یاسمین انجم، ڈاکٹر ہما مصطفی،ڈاکٹربنو رضوی،ڈاکٹر ریشما پروین،ڈاکٹر زیبا صدیقی،پروفیسردعا نقوی،ڈاکٹر کنیز فاطمہ،ڈاکٹر پروین شجاعت،ڈاکٹر عظمیٰ مبشر،محترمہ شہناز زیدی اورروبینہ رضا عثمانی کو’’دی ایسنشیل ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ان کے علاوہ ینگ وومن پرفارمرایوارڈ سی پی ایم ٹی کی ٹاپر عالیہ زہرا اور صحافت سے وابستہ یسریٰ حسین،عظمی طلحہ، اختر فاطمہ،صالحہ رضوی،اور زینب نقوی کودیا گیا۔
پروگرام کی دلکش نظامت کرتے ہوئے لکھنؤ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر عباس رضا نیر نے یہ سوال قائم کیا کہ شام غریباں کے بعد تاریخ اسلام کا رخ کدھر ہونا چاہئے۔انھوں نے کہا کہ زینب انقلاب بھی ہے اور احتجاج بھی۔انھوں نے کہا کہ آج دنیا میں ایک سازش کے تحت اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی کے نام پر بد نام کیا جارہا ہے۔ایسے میں حضرت زینب کے کردار کو دیکھیں جو اندھیروں میں روشنی کی علامت بن کر ابھرا۔زینب جو ایک ماں بھی ہے۔زینب جو ایک بہن بھی ہے،زینب جو ایک پھوپھی بھی ہے اور زینب ثانی زہرا بھی ہے۔سابق مرکزی وزیر عارف محمد خاں نے اپنے خطاب میں اظہار تشکر کرتے ہوئے پر لطف انداز میںکہا کہ وقار رضوی نے آج خواتین کی حصولیابیوں کے لئے’’زینب ڈے‘‘ پر انھیں ایوارڈ سے نواز کرایک بدعت کو انجام دیا ہے۔یہ ایسی بدعت ہے جسے روایت بن جانا چاہئے۔اور خاص طور پر شروعات ایک ایسی خاتون سے کی جو اسٹیشن پر قلی کاکام کرتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ حضور ﷺ اس بات کو نا پسند کرتے تھے کہ لوگ ان کے آنے پرکھڑے ہوں یا مصافحہ کے بعد ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیں۔ لیکن ایک مرتبہ ایک شخص آیامصافحہ کیا تو اس کے ہاتھ آپ کو سخت لگے آپ نے پوچھاکہ تمہارے ہاتھوں میں یہ گٹے کیسے ہیں اس نے جواب دیا کہ میں ایک باغ میں کنویں سے پانی بھرتا ہوں اور باغ کو سینچتا ہوں اوراس کی مزدوری سے اپناکنبہ چلاتا ہوں یہ نشانات اسی رسی کے ہیں۔تو آپ نے اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔اور کہا کہ خدا کی قسم ان ہاتھوں کو دوزخ کی آگ چھو نہیں سکتی۔انھوں نے کہا کہ ہمارے یہاں ایک نئی تہذیب آ گئی ہے جہاں کام کرنے والوں کو کمین اور بیٹھ کر کھانے والوں کو اشراف سمجھا جاتا ہے۔آج زمانہ بدل گیا ہے جس شعبوں پر مردوں کی اجارہ داری تھی خواتین ان شعبوں میں بھی نمایاں نظر آنے لگی ہیں یہ ایک انقلاب ہے۔انھوں نے کہا کہ مولیٰ علی کا فرمان ہے کہ اپنی اولادوں کی تربیت یہ سوچ کے کرو کہ انھیں اس زمانے سے مختلف زمانے میں جینا ہے جس میں کہ تم جی رہے ہو۔جدید سے جدید تر نظام بھی اس سے بہتر نظام نہیں دے سکتا۔انھوں نے کہا کہ زینب کی کہانی کربلا کی کہانی کی تو سیع ہے۔پاکستا ن سے تشریف لائے علامہ ضمیر نقوی نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ عورت کے چار کردار ہیں۔بیٹی، بہن،بیوی اور ماں،حضرت مریم کا ایک پہلو تشنہ رہ گیا تھا کہ وہ بیوی نہ بن سکی تھیںاور اس کردار کی تکمیل ہوئی فاطمہ زہرا کے کردار میں۔حضرت زینب نے بتادیا کہ قرآن کا نظریہ کیا ہے اور رسول اللہ کیا چاہتے تھے۔زینب نے جرات اظہار حق کا سلیقہ عطا کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ قرآن بڑے شاندار طریقے سے وقار نسواں کو بلند کر رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر شاعری کی بات کی جائے تو کسی صنف میں پر وقار عورت نہیں ملتی۔ اگر ملتی ہے تو وہ ہے صنف مرثیہ۔ڈاکٹر قمر رحمنٰ نے کہا کہ ملک کی دولت عورت کے آنچل میں ہے۔ہر شخص کو اپنی جگہ پر یہ سوچنا چاہئے کہ سماج میں عورت کے تعلق سے جو عمومی نظریہ ہے وہ بدلے۔میں سمجھتی ہوں کہ اس زاویے سے بھی یہ پروگرام بہت اہم ہے۔ڈاکٹر سراج اجملی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسین کے مقصدکی ناشر اور مبلغ ہیں حضرت زینب کبریٰ۔انھوں نے کہا کہ چادر تطہیر میں جمع ہونے والی شخصیات اور ان کی ذریات نے دنیا میں صرف ایک ہی کام کیا ہے وہ ہے اعلائے حق ۔ابن زیاد کے دربار میں حضرت زینب نے جس جرأت کے ساتھ اعلائے حق کیا وہ ایک مثال ہے۔انھوں نے صرف امام زین العابدین کو ہی نہیں بچایا بلکہ بعد میں آنے والے ائمہ کو بھی بچایا ہے۔اور اگر آج دنیا میں کہیں سادات زندہ ہیں تو ان کو بچانے والی ذات بھی زینب کی ہے۔زینب کا کردار علمی اور عملی دونوںمیدانوں میں یکساں ہے۔پدم شری پروین طلحہ نے کہا کہ ہمارے سماجی رویوں میں بدلاؤ کی اشد ضرورت ہے جہاں بیٹیوں کے لئے الگ قانون ہیں اور بیٹوں کے لئے الگ۔یہی سوچ عام طور سے والدین کی بھی ہوتی ہے۔انھوں نے کہا کہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں ہے بلکہ مشہور ناولسٹ ورجینا ولف کے والدین نے بھی اس کے بھایئوں کو اسکول بھیجا لیکن ورجینا کو نہیں بھیجا۔اگر والدین صحیح تربیت کریں تو اولاد کی ذہنیت میں خرافات نہ پیدا ہو۔انھوں نے کہا کہ آج زینب ڈے سے جب ہم اٹھ کر جائیں تو اپنا تجزیہ کریں ۔انھوں نے نجمہ خاتون کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری بھی لے کر ایک اور مثال قائم کی ۔آخر میں صدر جلسہ سید سبط رضی نے اپنے مختصر خطاب میںمنتظمین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ آج پوری دنیا میں یوم خواتین منایا جا رہا ہے لیکن اس اہم دن کو تاریخ انسانی کی ایک عظیم خاتون حضرت زینب سے معنون کر کے اس دن کا صحیح استعمال کیا گیا ہے ۔جن خواتین کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے وہ بھی ایک قابل قدر اور قابل تقلید کارنامہ ہے۔نہ صرف یہ کہ معاشرے میں اہم مرتبہ رکھنے والی خواتین کو نوازا گیا ہے بلکہ ایک مزدور پیشہ خاتون کو بھی نواز کر ایک لائق تحسین و لائق تقلید کام کیا ہے وقار رضوی اور ان کے رفقائے کار نے۔اسی کے ساتھ نئی نسل کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی ہے جن کے شانوں پر ایک روشن اور تابناک ملک و ملت کے مستقبل کی ذمہ داریاں ہیں۔اس قدم سے ان کے اندر آسمان کو چھونے کی للک پیدا ہو گی۔انھوں نے کہا کہ صرف ووٹ کا حق دے دینا ہی عورت کے حقوق کی ادائیگی نہیں ہے۔اسلام نے عورت کے جو حقوق دئے ہیں وہ کہیں اور نہیں ہیں۔ سماج میں تبدیلی جبھی آئے گی جب ہماری سوچ بد لے گی۔انھوں نے کہا کہ حضرت زینب کا خطبہ جرأت اظہارِ حق کی ایک زندہ اور تابندہ مثال ہے جو تا قیامت ایک مثال رہے گا۔اس موقع پرشاعر اہل بیت نایاب ہلوری نے منقبت زینب کے ا شعار پیش کر کے ایک سماں باندھ دیا:
عطا کا حسن کرم کا شباب ہے زینب
فضیلتوں کی مقدس کتاب ہے زینب
وہ جس نے ایک ہی شب سو کے لے لی مرضیِ رب
اسی کی جاگتی آنکھوں کا خواب ہے زینب
پروفیسر شارب ردولوی نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے ایوارڈ یافتگان کو مبارکباد دی اور کہا کہ عالمی یوم خواتین کے موقع پر سوائے زینب کے کوئی ایسا کردار نہیں ہے جس سے اس دن کو منسوب کیا جاسکتا۔کیونکہ زینب عالم انسانی میں پہلی خاتون ہیں جنھوں نے ظلم اور جبر کے خلاف صدائے احتجاج پوری جرأت حق کے ساتھ بلند کی۔
اس موقع پر پہلے سے اعلان کے مطابق سفر زیارت کے لئے قرعہ اندازی کی گئی جس میںانتظار حسین( لکھنو) کا نام نکلا۔وقار رضوی نے اعلان کیا کہ انتظار حسین جس قافلہ کے ساتھ جانا چاہیں اس قافلہ کو ۲۵ ہزار روپیہ کا چیک بطور کرایہ دے دیاجائے گا۔