از مرل ڈیوڈ کیلرہالزجونیئر
واشنگٹن – وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے لیئے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ پر عمل کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ21 اگست کے راکٹ حملے میں مہلک اعصابی گیس استعمال کی گئی جس سے تقریبا 1500 شامی شہری ہلاک ہوگۓ۔
کیری نے 19 ستمبر بعد از سہ پہر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی بریفنگ میں کہا ” {سویڈش سائنسدان اوکے} سیلسٹروم کی رپورٹ کے نتائج بہت ” واضح اور قابل یقین” ہیں۔ معلومات کے ذخیرے میں موجود چھوٹی بڑی ہر ایک چیز اس بات کی تصدیق کرتی ہے جس کا ہمیں پہلے سے ہی علم ہے اور جو ہم امریکہ اور دنیا کو بتا چکے ہیں جیسا کہ استعمال کیئے جانے والے لانچر اور اسلحہ، ان کا مقام، ان کی سمت، ان پر لکھی ہوئی تحریريں اور سارین گیس کی تصدیق۔ اس سے ان سب امور کی تصدیق ہوتی جو ہم اپنی کانگرس، امریکی عوام اور بقیہ دنیا کے علم میں لا چکے ہیں۔”
سیلسٹروم کی سربراہائی میں معائنہ کاروں کی ٹیم نے رپورٹ کے نتائج اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو گزشتہ ہفتے پیش کیئے۔ سیکرٹری جنرل نے16 ستمبر کو یہ رپورٹ سلامتی کونسل کے سامنے پیش کی اور حملے کو جنگی جرم قرار دیا۔
کیری نے کہا کہ ریاستہاۓ متحدہ امریکہ نے عجلت میں تیارکردہ 122 ملی میٹر کے راکٹوں کا کیمیائی حملے میں استعمال کا ذمہ دار شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ یہ راکٹ اس سے قبل ہونے والے شامی کیمیائی حملوں میں بھی استعمال کیئے گۓ اور یہ شامی فوج کے کنٹرول میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا کوئی ثبوت نہ تو اقوام متحدہ کی رپورٹ میں موجود ہے اور نہ ہی انٹیلی جنس کے جائزے میں کہ شامی حزب مخالف کی فوجوں نے یہ حملہ کیا۔ حزب مخالف کے پاس نہ حملہ کرنے کے وسائل تھے اور نہ مہلک اعصابی سارین گیس یا اسلحہ۔ وہ اس قابل بھی نہیں تھے کہ اپنے ہی لوگوں پر دمشق کے ایک ایسے علاقے سے حملہ کریں جسےشامی فوج کنٹرول کرتی ہے۔
کیری نے کہا “سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ سارین استعمال کی گئی۔ سارین سے لوگ مارے گۓ۔ دنیا فیصلہ کر سکتی ہے کہ آیا یہ ہتھیار ایک ایسی حکومت نے استعمال کیا ہے جو پہلے بھی کیمیائی ہتھیار استعمال کر چکی ہے اورجس کے پاس راکٹ اور ہتھیار ہیں یا پھر ایک ایسی حزب مخالف نے جو اپنے لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیئے خفیہ طور پر بغیر کسی کے علم میں آۓ ایک ایسے علاقے میں گئی اور سارین گیس سے بھرے راکٹ چلاۓ جواس کے کنٹرول میں نہیں اور اس کے پاس نہ تو گیس ہے اور نہ راکٹ ہیں۔”
کیری نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کیمیائی ہتھیاروں کے معائنے کی رپورٹ کے نتائج پر 23 تا27 ستمبر کے ہفتے کے دوران عملی قدم اٹھانے کے لیئے ضرور تیار رہنا چا ہیئے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اڑسٹھواں افتتاحی اجلاس ہو رہا ہو گا۔
کیری نے صحافیوں کو بتایا ” میں عالمی برادری سے کہوں گا کہ وقت تھوڑا ہے۔ ہم جو کچھ جانتے ہیں اس پر بحث میں وقت نہ صرف کریں۔ اس کی بجاۓ ہمیں احساس کرنا ہے کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ آیا ہم فوجی کاروائی سے بچ سکتے ہیں اور پرامن طریقوں سے فوجی حملوں کی نسبت زیادہ مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔”
انہوں نے کہا ” اب پرامن طریقوں سے مکمل طور پر شام کے کیمائی ہتھیاروں کی منتقلی ممکن ہے۔”
کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے جواب میں صدر اوباما نے اعلان کیا تھا کہ اگر شام اپنے کیمیائی ہتھیار اقوام متحدہ کی زیر نگرانی بین الاقوامی کنٹرول میں نہیں دیتا تو ریاستہاۓ متحدہ امریکہ شامی حکوت کے خلاف محدود پیمانے پر فوجی کاروائی کرے گا۔ انہوں نے امریکی کانگرس کو بتایا کہ وہ کانگرس کو فوجی کاروائی کی حمایت کی درخواست سے پہلے سفارتی کوششوں کا انتظار کریں گے۔
جان کیری اور روسی وزیرخارجہ سر گئ لاوروف کے درمیان حال ہی میں جنیوا میں مکمل ہونے والے مذاکرات میں ایک ایسا طریقہ کار طے پایا ہے جس کے تحت شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو شفاف، جلد اور قابل تصدیق طریقے سے تلف کیا جا سکے گا۔ اس حملے کے نتیجے میں شامی حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کے بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کرنے اور اس کنونشن کی شرائط کی پابندی کرنےکا وعدہ کیا ہے