شام میں مارچ 2011 سے جاری تنازعے کی وجہ سے شہریوں کو خوفناک تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔
اقوام متحدہ کے ادارۂ برائے ٹریننگ اینڈ ریسرچ کے مطابق اس کا اندازہ سٹیلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر سے ہوتا ہے۔
ادارے کے مطابق تنازعے کے دوران بڑے علاقے میں بجلی ترسیل کا نظام، طبی سہولیات اور سکول تباہ ہو گئے۔
ادارہ چار سال سے جاری تنازعے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ بھی شائع کرنے والا ہے۔
حمص 29 جون 2010
شام کا تیسرا بڑا شہر حمص تنازعے میں فریقین کے لیے ایک اہم میدان جنگ رہا ہے اور یہاں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔
شہر کے علاقے الحمدیہ میں اچھا خاص نقصان ہوا اور یہاں کئی سکول مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ شہر کی مشہور مسجد خالد ابن الولید بھی متعدد بار حملوں کا نشانہ بنی۔
حمص اپریل 2014
شہر کا نیشنل ہسپتال اور اس کے اطراف میں عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔
حمص جون 2010
حمص 21 اپریل 2014
حمص 15 فروری 2012
فروری 2012 کی تصاویر میں شہر کے مضافی علاقے بابا امر میں تیل کی پائپ لائن کے تباہ ہونے کے نتیجے میں دھویں کے کالے بادل دیکھے جا سکے ہیں۔ تیل کی یہ پائپ لائن شہر کے مغربی کنارے پر واقع تیل صاف کرنے والے کارخانے تک جاتی تھی۔
دير الزور
شام کے مشرقی شہر دیر الزور میں دریائے الفرات کو عبور کرنے والا تاریخی پل تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق یہاں 50 ہزار افراد کی دوسری جانب رسائی ختم ہو گئی۔
13 فروری 2013
6 دسمبر 2010
26 جون 2013
دیر الزور کے جون 2013 کے مناظر میں شہر کی مشہور الائچی مارکیٹ میں دسمبر 2010 کے برعکس کوئی سرگرمی نہیں نظر آتی ہے۔ 2010 میں یہاں پر کئی گاڑیوں، مارکیٹ سٹالز اور خریداروں کو دیکھا جا سکتا تھا۔
رقہ
شام کے شمالی شہر رقہ میں ایک مزار کے تین گنبد اور مینار مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔
12 اکتوبر 2011
6 اکتوبر 2014
باب الھوى
26 نومبر 2012 کی پہلی تصویر میں ترکی کی سرحد سے متصل باب الھویٰ میں شامی پناہ گزینوں کے کیمپ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہاں پر شامی فضائیہ نے حملہ کیا تھا۔ اس حملے کے ایک دن 27 نومبر کی تصویر میں فضائی بمباری کے نتیجے میں ہونے والی تباہی دیکھی جا سکتی ہے۔
حلب
شام کے دوسرے بڑے شہر حلب کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ یہاں کارلٹن سِٹاڈل ہوٹل اور تاریخی مسجد بھی بمباری کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی۔
21 نومبر 2010
22 اکتوبر 2014
حما
شام کے شہر حما کے ضلع موسیٰ الابعین کو 27 ستمبر سے 23 اکتوبر 2012 کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا اور یہاں عمارتیں مبے کا ڈھیر بن گئیں۔ یہاں شامی سکیورٹی فورسز نے بظاہر شہریوں کو حزب اخِتلاف کا ساتھ دینے پر عمارتوں کو تباہ کر دیا۔