آہ….یہ محبت جس میں بیک وقت کتنے ہی جذبے سموئے ہیں کہیں پہ درد ہے تو دوا بھی کہیں مسکان ہے تو آنسوﺅں کی جھڑی بھی ،زخم ہے ،تو مرہم بھی ،کہیں سوہنی بن کر کچے گھڑے پر دریا پار کرنے کا حوصلہ کرتی ہے تو کہیں ہیر بن کر مہر ووفا کے وعدے ایفا کرنے کیلئے جان تک نچھاور کردیتی ہے یہ محبت اگر نشیب وفراز کے پرپیچ راستے طے کر سکتی ہے تو گرم وسرد موسموں کی سختیاں بھی بلاچوں چراں برداشت کر سکتی ہے ۔ہاںاگر کچھ برداشت نہیں کر سکتی تو وہ ہے ”شراکت“اب خواہ وہ مرد ہو یا عورت ،اُسے کسی طور بھی اس خوبصورت ،دل نشین جذبے میں کسی کی شراکت قبول نہیں ۔یہاں تک کہ گر لمحہ بھر کو بھی یہ شک دل میں جاگزیں ہوجائے کہ منظور ِنظر کسی اور نظر کو منظور ہوتا جارہا ہ
ے یا ہوتی جا رہی ہے تو دل کی دنیا میں وہ ماتم بپا ہوتا ہے کہ بس!
اسی لےے توکہتے ہیں کہ محبت میں فاصلے بڑھنے دئےے جائیں اور نہ ہی کسی آسیب یا جادو گرنی کو جنتر منتر کا جاپ کرنے دیا جائے اور گاہے بہ گاہے نہ صرف محبت کے اس اٹوٹ بندھن کو ری فریش کرتے رہنا چاہےے بلکہ رجھانے اور لبھانے کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر تجدید ِمحبت بھی ہوتی رہنی چاہےے ۔وہ امجد اسلام امجد نے کہا ہے کہ ناں کہ محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے دیکھا ہے ….کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہوجائے ….اسے تائید ِتازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے ….یقین کی آخری حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو ….!!نگاہوں سے ٹپکتی ہو لہو یں جگمگاتی ہو ….!!!ہزاروں طرح کے دلکشی ،حسین ہالے بناتی ہو ….!!اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے ….محبت مانگتی ہو یوں گواہی اپنے ہونے کی ….کہ جیسے طفل ِسادہ شام کو اک بیج بوئے ….اور شب میں بارہااُٹھے ….زمین کو کھودکر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے ….محبت کی طبیعت میں عجب تکرار کی خو ہے ….کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی ….بچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو ….اسے بس ایک ہی دھن ہے ….کہو ….مجھ سے محبت ہے ….کہو ….مجھ سے محبت ہے تمہیں مجھ سے محبت ہے !!!
اور جب اظہارِمحبت من کی منڈھیر پر مدھر گیت بن کر گنگنانے لگے تو یقین کیجئے جذبوں کی پریاں آسمان سے اُتر کر ردِ بلا کا اسم جاپنے لگتی ہیں پھر کوئی چاہ کر بھی شراکت کا دعویٰ نہیں کرسکتا اور جب چار سو محبت گنگنانے لگے تو نہ صرف سجنے سنورنے کا من کرتا ہے بلکہ دل چاہتا ہے کہ اتنے حسین دلکشن اور دل فریب ملبوسات زیب تن کیے جائیں کہ شریک سفر یہ کہنے پر مجبور ہوجائے ”اپنے بس میں کر لیتے ہو ….کتنا بے بس کر دیتے ہو“۔