دہلی جنسی دست درازی معاملہ جس میں مجرمین کو سزائیں بھی سنائی جاچکی ہیں ۔بی بی سی نے اس کے تعلق سے ایک ڈاکیومنٹری کیا بنائی کہ اس پر ایک ہنگامہ بپا ہے ۔گلی سے لے کرپارلیمنٹ تک سب جگہ شور مچا ہوا ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بہت بڑی مصیبت نازل ہو گئی ہویا ملک کا کوئی اہم راز دشمن کے ہاتھوں میں چلا گیا ہو یا قانون کی کوئی بہت بڑی خلاف ورزی ہو گئی ہو جبکہ ان میں سے کسی بھی معاملے کو ہم اکثر جگہوں پر کوئی اہمیت نہیں دیتے یہ اور بات ہے کہ صرف سیاست چمکانے کے لئے شور مچانا اور آسمان سر پر اٹھا لینا ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے۔لیکن ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے یہ مصیبت کا پیغام ہی ثابت ہو اس لئے اس کو شور شرابے میں دبانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔حکومت نے بھی اس دستاویزی فلم پر پابندی لگادی ہے۔یہاں یہ بتادیں کہ حکومت اس سلسلے میں جو وجہ بیان کررہی ہے وہ انتہائی ناقص ہے ۔ شاید حکومت یا تو دبائو میں اس طرح کی حرکت کر رہی ہے یا پھر اسے یو پی اے حکومت کو شک کے دائرے میں لانا مقصود ہے کیوں کہ مجرمین سے تہاڑ جیل میں صحافی ک
ی ملاقات کی اجازت یو پی اے حکومت میں ہی دی گئی تھی۔ہمارے ملک کا ایک عام رواج شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے جیسا ہے۔لیکن ریت میں منھ چھپانے سے مسائل ختم نہیں ہو جاتے ۔اسی طرح ملک میں بڑھتے زنا با الجبر کے واقعات نہ قانون بنانے سے ختم ہوں گے اور نہ ہی کینڈل مارچ نکا ل کر اس کے خلاف نعرہ لگانے سے اور نہ ہی اس سے متاثر افراد سے جھوٹی اور خلوص سے عاری ہمدردی جتانے سے ۔یہ سب کچھ ہونا چاہئے لیکن اسی کے ساتھ کچھ زمینی حقیقتیں بھی ہیں جنہیں ہمیں قبول کرنا ہوگا۔لیکن مشکل یہ ہے کہ لوگ ان حقیقتوں کو جاننا ہی نہیں چاہتے ۔جو لوگ تھوڑی بہت ہمت جٹا کر ایسی باتیں کہتے یا کرنے کی تلقین کرتے ہیں اگلے ہی لمحے انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہوں نے بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔
دستاویزی فلم سے متعلق میری رائے ہے کہ کسی بھی مسئلہ یا تنظیم کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے اس پر پابندی لگانا ہی کافی نہیں ہے ۔بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ پابندی سے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے ۔یہ تو ایسا ہی ہوا جیسے سانپ بل میں گھس جائے اور لوگ لکیر پیٹتے رہیں ۔بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی بھی حکومت کا بیجا اور محض دبائو میں اٹھایا گیا قدم ہے ۔اگردستاویزی فلم میں مجرمین کا انٹر ویو ہی پیش کیاگیا ہے تو اس میں کون سی ایسی قیامت آ گئی ۔بلکہ یہ تو اچھی بات ہے کہ ہمیں اور عوام کو ان کی بھی رائے جاننے کا موقع ملے گا۔ہمیں بہر حال ان حالات کو جاننا چاہئے جن حالات میں یہ شرمناک واقعہ رونما ہوا اور یہ جب ہی کھل کر سامنے آپائے گا جب ہم ان کی رائے بھی جانیں جنہوں نے اس گھنائونے جرم کو انجام دیا ہے ۔اسی بات کو میں نے اوپر زمینی حقیقت کا نام دیا ہے ۔اوپری سطح پر قانون بنا کر سزا دے کر کچھ نہیں ہوگا ۔میڈیا میں بھی زیادہ شور مچانے سے کچھ نہیں ہوگا ۔بلکہ میڈیا اس طرح کی خبروں میں مرچ مسالہ لگاکر شرمناک سے شرمناک خبروں کو چٹخارے دار بنانے کی کوشش کرتا ہے جس سے جرائم میں مزید اضافہ ہو رہا ہے ۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ابھی حالیہ سروے رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نربھیا ۲۰۱۲ واقعہ کے بعد حالیہ دنوں میں زنا بالجبر کے واقعات میں تیس فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے ۔سوچنے کا مقام ہے کہ اس حادثہ پر عوام کا اتنا سخت رد عمل آنے کے باوجود بھی گھنائونے جرم میں اضافہ کیوں ؟اس کا سبب چاروں مجرمین میں سے ایک مکیش کے دفاعی وکیل اے پی سنگھ اور ایک دیگر وکیل نے دئے ہیں ۔ان لوگوں نے وہی باتیں کہی ہیں جو کہ عام طور پر اخلاقی اقدار پر ایقین رکھنے والا شخص کہا کرتا ہے اور جس سے نام نہاد آزای کے علمبردار آگ بگولہ ہو جاتے ہیں ۔احمقوں کو یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آتی کہ جس ذہنیت کی تبدیلی کی باتیں یہ کرتے ہیں وہ آخر اتنے بگاڑ میں آیا ہی کیوں ۔اگر ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے اور یقینا ضرورت ہے تو وہ ذہنیت بدلے گی کس طرح ۔آخر کیوں زنا بالجبر کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے اس کے باوجود کہ اس مدت میں اس طر ح کے جرم میں کئی کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہیں اور ایک کولکاتا میں پھانسی دی بھی جاچکی ہے ۔اگر لوگو مخلص ہوں تو دونوں دفاعی وکلائ کی باتوں پر غور کریں ۔از خود زنا بالجبر پر قابو پانے کا طریقہ مل جائے گا ۔تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ۔مجھے یاد آتا ہے کہ آسٹریلیا میں ایک امام مسجد نے یہ کہہ دیا کہ گوشت کو کھلا چھوڑ دوگے تو بلی اسے کھائے گی ہی ۔یہ کہنا اتنا بڑا جرم تھا کہ انہیں آسٹریلیا بدر کردیا گیا ۔ یہ باتیں بھارت میں بھی اٹھتی رہی ہیں اور ہر طرح کے لوگوں نے اٹھائی ہیں لیکن اسے سختی سے دبا دیا گیا ۔قرآن بھی مسلمان مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کی تلقین کرتا ہے ۔نیز یہ اسلام سرے سے ان مواقع پر ہی قدغن لگا دیتا ہے جس سے سوسائٹی میں یہ گھنائونے جرم سرزد ہوا کرتے ہیں ۔
اس لئے حکومت کو بجائے بیجا مطالبات کے سامنے جھک کر اس پر پابندی لگانے کے اور سوشل سائٹ پر اس کی نمائش پر بین لگانے کے اسے آزادانہ نمائش کی اجازت دینی چاہئے تاکہ ان لوگو ں کی رائے اور خیالات سے بھی عوام اور خواص واقف ہو پائیں جنہوںنے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جس میں ہم جیسا ہی کوئی انسان جانوروں سے بھی بدتر بن جاتا ہے اور انسانیت شرمسار ہو جاتی ہے ۔ اس سے ان کو حوصلہ نہیں ملے گا جیساکہ بعض لوگ کہہ رہے ہیں ۔مجرمین کو حوصلہ دینے کی بات تو جب ہو تی جب ان کی کوئی حمایت کرتا۔یہاں حمایت کی کوئی بات ہی نہیں ہے،صرف ان کی رائے جاننے کی بات ہے ۔آخر وہ کون سے حالات تھے جن میں انہوں نے یہ انسانیت کو شرمسار کرنے والا کام انجام دیا۔میں نہ تو بے لگام آزادی کا ہمنوا ہوں اور نہ ہی بیجا پابندیوں کا ،لیکن چونکہ یہ دستاویزی فلم مختلف لوگوں کی آراء پر مشتمل ہے جس میں سماجی کارکن وکلا منصف اور دیگر قانونی ماہرین کے علاوہ مجرمین اور متاثرین کے خیالات شامل ہیں۔نیز اس میں دونوں اطراف کے لوگوں کےقریبی رشتہ داروں پڑوسیوں وغیرہ کی بھی آرائ شامل ہیں ۔اس لئے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ ہم اس سماجی کینسر کے بارے میں زیادہ کچھ جان پائیں گے ۔جس سے اس کے خاتمے کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جاسکے گا یا قانون کے علاوہ کوئی اور طریقہ کار جس سے اس برائی کا خاتمہ ہو سکے ۔ہو سکتا ہے یہ دستاویزی فلم ہمیں کوئی ایسی راہ سجھائے جو اب تک ہماری نظروں سے کسی نہ کسی وجہ سے اوجھل ہے۔اس میں کہیں نہ کہیں ہمارا تعصب بھی حائل ہے کہ ایک ایسا بھی نظریہ اس دنیا میں ہے جس کی وجہ سے اس برائی کا خاتمہ ممکن ہے ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ نظریہ جہاں حاوی ہے وہاں عورتیں دنیا میں سب سے زیادہ محفوظ ہیں گرچہ منفی پروپگنڈہ سے انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس لئے ہو سکتا ہے کہ اس دستاویزی فلم کی وجہ سے ہماری آنکھوں سے تعصب ہٹے اور ہم خواتین کی سلامتی کے لئے وہ اقدامات کر سکیں جس سے ملک آئندہ خواتین کی سلامتی کے تعلق سے شرمسار ہونے سے بچ جائے۔اس لئے اس دستاویزی فلم کو بہر صورت عوام الناس کی نمائش کے لئے پیش کیاجانا چاہئے تاکہ وہ راہیں کھلیں جس پر چل کر خواتین کی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے گا ۔