مرحوم شاہ عبداللہ چار نئے شہروں کو بسانے کے لیے پرامید تھے۔ ان جدید شہروں میں سے ایک ایک کنگ عبداللہ اکنامک سٹی ہے
سعودی عرب کے نئے شہر کی ایک پرائیویٹ سڑک پر اپنےہاتھ کو لہرا کر وردی میں ملبوس ایک سکیورٹی گارڈ
نے ہمارا استقبال کیا۔
’کنگ عبداللہ اکنامک سٹی‘ ان چار نئے شہروں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں مرحوم بادشاہ شاہ عبداللہ پرامید تھے کہ وہ مستقبل میں تیل ختم ہو جانے کی صورت میں سلطنت کے لیے اہم ہوں گے۔
یہ نیا شہر جدہ سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر بحیرۂ احمر اور صحرا کے درمیان واقع ہے۔
شہر کے مسقبل کا انحصار پیچیدہ اور جدید ترین ٹرانسپورٹ کے نظام، تعلیم، صحت، مکانات اور روزگار پر ہے اور اسے بسانے کے لیے 20 لاکھ رہائشیوں کی ضرورت ہے۔
اس میگا سٹی کی تیاری پر ایک کھرب امریکی ڈالر لاگت آئے گی
اس نئے شہر کا پروجیکٹ ایمار اکنامک سٹی کمپنی کے پاس ہے۔ ایمار کے مینیجنگ ڈائریکٹر فادی الرشید کا کہنا ہے کہ سعوی عرب میں نئی نسل ایک ایسا شہر چاہتی ہے جو اس جدید طرزِ زندگی سے مطابقت رکھتا ہو جو وہ بیرونِ ملک تعلیم کے دوران گزارتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس شہر کو بناتے وقت اس 65 فیصد آبادی کو ذہن میں رکھا جارہا ہے جس کی عمر 30 سال سے کم ہے۔
’تقریباً دو لاکھ سعودی بیرونِ ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔لازمی طور پر وہ واپس لوٹیں گے تو تبدیلیاں کریں گے۔‘
اِن اعداد و شمار سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ یونیورسٹیوں سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے والوں میں مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔
آبادی میں یہ بدلتی ہوئی خصوصیات اپنے ساتھ نئے سماجی مطالبات لے کر آتی ہیں اور پھر ان تبدیلیوں سے یہ طے ہوتا ہے کہ ملک کی ترقی کیسے ہوگی۔
میگا سٹی
یہ شہر رقبے میں امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سےذرا بڑا ہے
70 مربع میل پر پھیلا ’ کیک‘ شہر تکمیل پر رقبے میں واشنگٹن ڈی سی سے کچھ بڑا ہو گا۔ اس پر ایک کھرب ڈالر لاگت آئے گی جس کے لیے زیادہ تر فنڈنگ نجی سطح پر ہوئی ہے۔
کنگ عبداللہ اکنامک سٹی اپنے تصور کی عظمت میں کسی دوسرے شہر سے پیچھے نہیں۔ کنگ عبداللہ نامی بندرگاہ پر موجود ایک نوجوان منیجر ریان بخاری نے بتایا کہ ان کا ارادہ یہاں دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہ قائم کرنے کا ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم جدہ کی اسلامی بندرگاہ سے مقابلہ نہیں کر رہے، لیکن ہم دبئی کے جبلِ علی سے کاروبار کو دور لے جا رہے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس کا مقصد تیز اور خودکار طریقے سے سامان اتارنے اور کسٹم کے عمل سے گزرنا ہے۔
ریان بخاری نے بھی بتایا کہ مرحوم بادشاہ عبداللہ نجی شعبے کو ملک کی معاشی ترقی کے شعبے میں شامل کرنے کے لیے پرعزم تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جدید معیشت کے فروغ کے لیے بادشاہ نے قبائلی اور علاقائی دشمنیوں کو پس پشت ڈال دیا تھا۔
ریان بخاری نے یہ بھی وضاحت کی کہ بندرگاہ پر پہنچنے والا سامان نئے زمینی پل کی مدد سے براہ راست دارالحکومت تک پہنچایا جائے گا۔
’اس وقت بہت سی اشیا ریاض سے جہاز کے ذریعے دبئی پہنچائی جا رہی ہیں مگر یہ تبدیل ہو جائے گا۔ انھیں یہاں سے بھجوایا جائے گا کیونکہ یہ سستا ہے اور پوری سلطنت میں تیزی سے پہنچایا جا سکتا ہے۔‘
حرمین ریلوے سٹیشن کا ڈیزائن معروف ماہرِ تعمیرات نورمن فاسٹر نے تیار کیا ہے
کنگ عبداللہ اکنامک سٹی کے مستقبل کا لازمی جزو تیز رفتاری ہے۔
مکہ اور مدینہ دونوں شہروں کے ریل کا نیٹ ورک کنگ عبداللہ اکنامک سٹی کے ساتھ بھی جڑا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ صاحبِ ثروت عمرہ زائرین پیغمبر اسلام کی جائے پیدائش سے مقامِ مدفن کا سفر کرتے ہوئے اس شہر کا رخ بھی کریں گے۔
فادی الرشید بتاتے ہیں کہ رواں سال کے آخیر تک حرمین ریلوے سٹیشن کھول دیا جائے گا۔
’ریل گاڑی بہت سی چیزیں بدل کر رکھ دے گی۔‘
اس سٹیشن کا ڈیزائن معروف ماہرِ تعمیرات نورمن فوسٹر نے بنایا ہے جنھوں نے لندن میں کھیرے کی شکل کی عمارت ’گرکن‘ اور برلن کی رائیک سٹاک ڈوم کے ڈیزائن بنا کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ زائرین اضافی ویزے کی بدولت اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور ان کے سفر کی معیاد آدھ گھنٹہ کم ہو جائے گی۔
جدہ اس وقت کاروں کی بھرمار کی وجہ سے جام دکھائی دیتا ہے، لیکن کنگ عبداللہ اکنامک سٹی کے حوالے سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ ایندھن کےدھوئیں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے شہر کے اندر بجلی سے چلنے والی کاروں کی مفت سہولت فراہم کرے گی۔
’کیک‘ کی تعمیر اور نگرانی نجی سیکٹر کے ذریعے کی جا رہی ہے اور یہ سعودی سٹاک ایکسچینج ’تداول‘ میں بھی شامل ہے۔ خلیجی ممالک میں معاشی صورت حال نے سعودی عرب پر بھی اثر ڈالا ہے جہاں حکومت کے لیے قرض لازمی ہوگیا ہے۔
ریاست میں آنے والی سماجی تبدیلیوں کی وجہ سے اس ماسٹر پلان میں تبدیلیاں آئی ہیں۔
ابھی شہر کا صرف 15 فیصد حصہ تعمیر ہو سکا ہے جس میں 20 لاکھ افراد کو بسانے کا منصوبہ ہے
سٹریٹیجک پلانگ کے سربراہ طارق سلیطہ نے یہ تصدیق بھی کی کہ اب تک اس منصوبے کو چار بار تبدیل کیا جا چکا ہے۔
’ہمیں شاید ایک بار پھر اچھی طرح سوچنے کی ضرورت ہے۔‘
اس شہر کو بسانے کے منصوبے کو سرخ فیتے کی وجہ سے بار بار تعطل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے حکومت نے اکنامک سٹی اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا ہے جس کا کام ان چاروں میگا سٹیز کے منصوبوں کی نگرانی کرنا ہے۔ لائسنسوں اور تعمیر کے پرمٹ کے لیے مختلف وزارتوں کی جانب سے توثیق اسی ادارے کے ذریعے ملتی ہے۔
ابھی اس شہر کا فقط 15 فیصد کام مکمل ہوا ہے۔ صنعتی اور رہائشی علاقوں اور عوامی سہولت کے مقامات کی تعمیر ابھی جاری ہے۔
90 فیصد سڑکیں پہلے ہی استعمال میں ہیں، لیکن ایک مشکل سوال خواتین کی ڈرائیونگ کا ہے۔ 20 سال میں جب کنگ عبداللہ اکنامک سٹی کی تعمیر مکمل ہو جائے گی کیا تب تک خواتین ڈرائیونگ کر سکیں گی؟
دانیا بیداس کے لیے، جو گذشتہ دو دہائیوں سے اس شہر میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں اور نوکری کرتی ہیں، اب یہ شاید ایک غیر متعلقہ سوال ہو گا۔
وہ کہتی ہیں کہ مجھے امید ہے کہ بالآخر وہ ہمیں گاڑی چلانے کی اجازت دے دیں گے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بغیر ڈرائیور کے گاڑی کا منصوبہ زیرِتکمیل ہے اور پھر اس سے شاید زیادہ فرق نہ پڑے۔