لکھنؤ(نامہ نگار)اردو شاعری اور مرثیہ کے آفتاب و ماہتاب کہے جانے والے میر ببر علی انیس اور مرزا سلامت علی دبیر آج بھلے ہی اپنے مرثیوں کی وجہ سے دنیا میں زندہ ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اپنے شہر لکھنؤ میں ان کی قبریں آج ویران ہیں۔ چاروں طرف گندگی اور اونچی اونچی جھاڑیوں کے درمیان ان کے مزاروں تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔
خدائے سخن کے نام سے مشہور مرزا سلامت علی دبیر نخاس کے نزدیک ایک تنگ سی اندھیری گلی میں ہے یہاں گلی پر لگا کوچہ مرزا دبیر کا پتھر مزار تک پہنچنے کا راستہ بتاتا ہے۔ کوچہ مرزا دبیر کے سامنے پہنچنے پر وقت کے تھپیڑے برداشت کر رہی بدحال عمارت پر ٹین کا دروازہ لگا ہے۔ عمارت کے اندر داخل ہونے پر ایک بڑے سے ہال میں مرزاسلامت علی دبیر کی قبر ہے قبر پر تحریر ہے ’خوابگاہ خدائے سخن‘۔ عمارت ک
ے اندر کا فرش بھی خستہ ہال ہو کر جگہ جگہ سے ٹوٹ چکا ہے۔
کچھ یہی ہال میر ببر علی انیس کی اکبری گیٹ کے نزدیک واقع قبر کا بھی ہے۔قبر تک جانے والے راستے پر اردو میں مقبرہ میر انیس تحریر ہے جو قبر کا پتہ بتاتاہے۔ اونچی اونچی جھاڑیوں کے درمیان واقع مقبرہ میں میر انیس کی قبر پر لگے پتھر پر میر انیس اور مرزا دبیر کے شعر تحریر ہیں۔دونوں عظیم شاعروںکی قبریں اونچی اونچی عمارتوں سے گھِر کر تقریباً گُم ہو گئی ہیں۔ میر انیس کی پیدائش ۱۸۰۲ء میں فیض آباد ضلع میں ہوئی اور انتقال ۱۸۷۴ء میںلکھنؤ میں ہوا۔ اسی طرح مرزا دبیر کی پیدائش ۱۸۰۳ء میں دہلی میں ہوئی اور ان کا انتقال بھی میر انیس کے انتقال کے ایک سال بعد ۱۸۷۵ء میں لکھنؤ میں ہوا۔ واضح رہے کہ منگل کو این سی پی یو ایل کے نائب صدر پدم شری مظفر حسین نے میر انیس کی قبر کا دورہ کیا قبر کی بدحالی دیکھ کر انہوںنے راج بھون میںوزیر اعلیٰ سے اس پر تشویش ظاہر کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے معاملہ پر غور کرتے ہوئے میر انیس اور اردو کے مشہور شاعر میر تقی میر کی قبروں کی مرمت کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی وزیراعلیٰ کی یقین دہانی کے بعد جمعرات کو کثیر تعداد میں لوگ میر انیس کی قبر پر پہنچے۔