مونیکا لیونسكی نے ٹیکنالوجی کے بارے میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو ایک ہمدردانہ انٹرنیٹ کر ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ سنہ 1998 میں مونیکا لیونسكی اور امریکی صدر بل کلنٹن کے معاشقے کی خبر دنیا میں پھیل گئی تھی۔
ٹیکنالوجی، انٹرٹینمنٹ اور ڈیزائن (ٹیڈ) کانفرنس کے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے لیونسكی نے بتایا کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد وہ انٹرنیٹ پر لوگوں کے منفی اور بد تہذیب رویے کا مرکز بنی۔
لیونسكی نے کہا کہ انٹرنیٹ کے استعمال نے ایک ایسے ماحول کو عام کر دیا ہے جہاں کوئی کسی کی توہین کر سکتا ہے اور وہ تاریخ کے پہلے ’سائبر بُلیئنگ‘ کے
متاٰثرین میں شامل ہیں۔
1998 میں ایک معاشقے میں ملوث ہونے کے بعد میں ایک سیاسی، قانونی اور میڈیا طوفان کا مرکز بن گئی جس کی شاید کوئی مثال نہیں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سکینڈل آپ تک ڈیجیٹل انقلاب کے تعاون سے پہنچا
لیونسكی کے اس پیغام اور ان کی تقریر کو کانفرنس میں بھرپور پذیرائی ملی۔ سنہ 2005 کے بعد یہ ان کا صرف دوسرا خطاب ہے۔ مزاحیہ انداز میں اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے لیونسكی نے کہا کہ شاید وہ دنیا میں واحد 40 سالہ خاتون ہیں جو اپنی 22 برس کی عمر کی جوانی کو یاد نہیں کرتیں۔
’22 سال کی عمر میں مجھے اپنے باس سے محبت ہو گئی اور 24 سال کی عمر میں میں نے اس کا انجام برداشت کیا‘۔ انھوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے ان کی تذلیل میں کئی گُنا اضافہ ہوا۔
’1998 میں ایک معاشقے میں ملوث ہونے کے بعد میں ایک سیاسی، قانونی اور میڈیا طوفان کا مرکز بن گئی جس کی شاید کوئی مثال نہیں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سکینڈل آپ تک ڈیجیٹل انقلاب کے تعاون سے پہنچا ‘۔
اگرچہ 1998 میں سوشل میڈیا کا دور صحیح معنوں میں نہیں شروع ہوا تھا تاہم لونسکی کی تصاویر انٹرنیٹ پر گردش کرنے لگ گئیں اور اس سے سکینڈل تیزی سے پھیلنے لگا۔
’میں ایک خاموش اور نـجی زندگی جیتے جیتے اچانک پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ پوری دنیا میں میری تذلیل ہوئی، ایسا لگتا تھا کہ انٹرنیٹ کا یہ ہجوم مجھ پر پتھر پھینک رہا ہے۔‘
سائبر بُلیئنگ
میں ایک خاموش اور نـجی زندگی جیتے جیتے اچانک پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ پوری دنیا میں میری تذلیل ہوئی، ایسا لگتا تھا کہ انٹرنیٹ کا یہ ہجوم مجھ پر پتھر پھینک رہا ہے۔مجھے طوائف، بازاری عورت، جیسے تمام القاب سے نوازا گیا۔
’مجھے طوائف، بازاری عورت، جیسے تمام القاب سے نوازا گیا، میں اپنی ساری عزت اور ساکھ کھو بیٹھی۔ 17 سال پہلے اس کا کوئی نام نہیں تھا لیکن اب اسے ’سائبر بلیئنگ کہتے ہیں۔‘
برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’چائلڈ لائن‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ گذشتہ سال سائبر بلیئنگ کے واقعات میں 87 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
ہالینڈ کی ایک ایسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سائبر بلیئنگ بچوں میں خود کشی کا ایک بڑا سبب بن سکتی ہے۔
لیونسكی کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ نے لوگوں کی تذلیل کرنا ایک کاروبار بنا لیا ہے۔
’ہر کلک سے لوگوں کی تذلیل ہو رہی ہے اور ہر کلک پر لوگ پیسے بنا رہے ہیں۔‘
حال ہی میں اداکارہ جنیفر لارنس کی لیک ہونے والی برہنہ تصاویر کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان تصاویر کو عام کرنے والی ایک ویب سائٹ نے پچاس لاکھ سے زیادہ کلک حاصل کیے۔
انھوں نے کہا کہ انٹرنیٹ نے لوگوں میں دوسروں کے درد اور اذیت کے احساس کو ختم کر دیا ہے ۔ لیونسكی نے کہا کہ وہ مستقبل میں سائبر بلیئنگ کے مسئلے پر آواز اٹھائیں گی اور وہ اسی وجہ سے اب عام لوگوں سے بات کر رہی ہیں۔
’میں اپنے ماضی کے بارے میں اب شرمندہ نہیں ہونا چاہتی اور اس سارے بیانیے کو تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔ جو لوگ ایسی کسی چیز سے گذر رہے ہیں، میں ان لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ یہ وقت بھی گذر جائے گا‘۔