مسلمانوں کے ساتھ حکومت عدلیہ اور پولیس کے رویہ پر بیرسٹر اویسی کا اظہار ,حیدرآباد۔03دسمبر: بابری مسجد کی شہادت کے 21 برس کی تکمیل کے موقع پر مسلمانان حیدرآباد نے اپنے شدید غم و غصہ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد بابری مسجد کو اسی مقام پر تعمیر کرنے کا وعدہ پورا کرے اور بابری مسجد کے مقدمہ کی جلد از جلد سپریم کورٹ میں یکسوئی کی جائے۔ دارالسلام میں متحدہ مسلم مجلس عمل کے زیر اہتمام بازیابی بابری مسجد کے سلسلہ میں منعقدہ مرکزی احتجاجی جلسہ عام جناب محمد عبدالرحیم قریشی کنوینر متحدہ مسلم مجلس عمل کے زیر صدارت میں منعقد ہوا۔ اعتماد نیوز کے مطابق اس جلسہ میں ہزاروں کی تعداد میں فرزندان اسلام شریک تھے جو نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور بابری مسجد لے کر رہیں گے کے نعرے لگارہے تھے۔ جناب محمد عبدالرحیم قریشی ایڈوکیٹ صدر مجلس تعمیر ملت نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ بابری مسجد کے مسئلہ اور مقدمہ میں ہمیشہ سچائی حق و انصاف کا خون ہوتا رہا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ جو 3 جلدوں میں ہے اس میں سے ہزاروں صفحات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ جناب عبدالرحیم قریشی نے چیلنج کیا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام جنم بھومی کا وجود کسی بھی تاریخی کتاب سے ثابت کردیا جائے تو مسلمان اس سے دستبردار ہونے کے لئے تیار ہیں۔ ہندوستان میں انگریزوں کے منحوس قدم آنے کے بعد یہ مسئلہ پیدا ہوا اس سے پہلے کبھی بھی رام جنم بھومی کا کوئی تذکرہ تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ صدر جلسہ نے کہا کہ شہنشاہ بابر کے دور میں مندر توڑ کر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت ہی نہیں ہے کیونکہ تلسی داس کی رام چرتر مانس شہنشاہ اکبر کے دور میں لکھی گئی تھی اگر ایسا ہوتا تو تلسی داس رام جنم بھومی کا تذکرہ کرتے۔ صدر جلسہ نے کہا کہ روز اول سے عدالتیں بابری مسجد کا خون کرتی رہیں۔ جس وقت بابری مسجد میں دیوار پھاند کر مورتیاں بٹھائی گئیں اس وقت ایک کانسٹبل ماتا پرساد اور سب انسپکٹر رام دوبے نے ایف آئی آر درج کیا کہ بابری مسجد کی دیوار کود کر مسجد میں مورتیاں بٹھائی گئیں لیکن ایف آئی آر کے 23 دسمبر 1949 میں اندراج سے آج تک اس ایف آئی آر پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ کے کے نیر ڈپٹی کمشنر فیض آباد مسجد میں مورتیاں بٹھانے کا ذمہ دار تھا۔ اس وقت کے کانگریسی لیڈر اکشے برہما چاری نے مرکزی حکومت کو ان سازشوں کے بارے میں لکھا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ جناب عبدالرحیم قریشی نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں یہ جھوٹ لکھا گیا کہ بابری مسجد کی تعمیر 1528 سے 1948 تک اس میں نماز ہی نہیں ادا کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ انگریزوں کے دور میں 1856 میں مسجد کے احاطہ میں ایک چبوترہ بنایا گیا جس پر مہنت نے مندر بنانے کے لئے مقدمہ دائر کیا۔ اس کے خلاف بابری مسجد کے متولی نے انگریزی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ صدر جلسہ نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کا اصل ذمہ دار آنجہانی وزیر اعظم نرسمہا را ہے کیونکہ سابق مرکزی معتمد داخلہ مدھو گوڈبولے نے اپنی کتاب میں لکھا کہ بابری مسجد کے انہدام سے قبل نومبر سے دسمبر تک پولیٹکل افیئرس کمیٹی میں یہ بار بار کہا گیا کہ بابری مسجد کی جگہ کو مرکزی حکومت اپنے کنٹرول میں لے۔ جناب عبدالرحیم قریشی نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بابری مسجد کے مقدمہ میں تاخیر نہ کی جائے اور سپریم کورٹ میں مقدمہ کی اپیل پر فوری کارروائی شروع کی جائے۔ مقدمہ کا مکمل ریکارڈ الہ آباد کی عدالت میں موجود ہے اس ریکارڈ کو جلد از جلد سپریم کورٹ منتقل کیا جائے۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ظلم کے مقابلہ کے لئے عزم و ہمت پیدا کریں۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے کہا کہ اس ملک میں انصاف کے علیحدہ پیمانے ہیں۔ عدلیہ نے مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سپریم کورٹ نے آج تک تحقیر عدالت کے مقدمہ کی سماعت نہیں کی۔ فوج کے ریٹائرڈ اعلی عہدیدار وی کے سنگھ کو تحقیر عدالت پر عدالت میں طلب کیا جاتا ہے جبکہ بابری مسجد کے مقدمہ میں تحقیر پر کوئی سماعت نہیں کی جاتی۔ صدر مجلس نے کہا کہ ممبئی میں جو بم دھماکے ہوئے اس کے تمام ملزمین کو سزا سنا دی گئی لیکن بابری مسجد کے مقدمہ میں آج تک اڈوانی ونئے کٹیار اومابھارتی مرلی منوہر جوشی اور دوسروں کو بچایا جارہا ہے۔ مسجد کی شہادت کے ذمہ داروں کی تحقیقات کے لئے سی بی آئی کو ذمہ داری دی گئی لیکن تکنیکی بنیاد پر مقدمہ کو خارج کردیا گیا جو اس ملک میں فساد کے لئے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے خاطیوں کے خلاف اپیل دائر کی گئی لیکن آج تک اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے چیلنج کیا کہ سی بی آئی اس مقدمہ میں جانبدارانہ کارروائی کرتے ہوئے اڈوانی کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلائے گئی جبکہ اگر مسلمانوں کے خلاف کوئی مقدمات ہوں تو فوری ان مقدمات کی چارج شیٹ ڈال دی جاتی ہے۔ صدر مجلس نے کہا کہ آزادی کے بعد سے آج تک ہندوستان کے مسلمانوں کو پولیس اور عدالت سے انصاف نہیں ملا۔ 400 برس جس مسجد میں نمازیں ادا کی گئیں اچانک راتوں رات قفل توڑ کر اس میں مورتیاں رکھ دی گئیں۔ اس وقت کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے کے نیر نے مرکزی حکومت کو ریڈیو پیام دیا کہ 15 پولیس جوانوں کی موجودگی میں مورتیاں رکھ دی گئیں ہائی کورٹ نے اس بات کو بھی نظر انداز کردیا۔ پولیس نے جو 60 سال پہلے خاموشی کی ایکٹنگ کی تھی وہ آج بھی جاری ہے۔ عدالت نے صرف ایک بات کو تسلیم کیا کہ رات کے اندھیرے میں مورتیاں رکھی گئیں تو پھر فیصلہ مسلمانوں کے خلاف کیسے کردیا گیا۔ تحت کی عدالتوں میں اس مقدمہ میں مکمل جانبداری اور سازش سے کام لیا گیا۔ عدالت نے مقدمہ کی سماعت کے دوران مقدمہ کے ایک فریق مسلمانوں کو بلایا تک نہیں اور صرف 45 منٹ سماعت کے بعد 30 صفحات پر مشتمل مقدمہ کا پہلے سے ٹائپ شدہ فیصلہ حوالے کردیا گیا جبکہ اس دور میں ٹائپ رائٹر پر 30 صفحات 45 منٹ میں ٹائپ ہی نہیں کئے جاسکتے تھے۔ صدر مجلس نے کہا کہ وہ کسی مذہب کے خلاف نہیں ہیں اور نہ رام جی کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے دستور کی بنیاد سیکولرازم پر رکھ دی گئی ہے لیکن 14 لاکھ سال پہلے کے واقعہ کو بنیاد بناکر اس مقدمہ کا فیصلہ کیا جارہا ہے۔ مورخین یا سائنسدان زیادہ سے زیادہ 60 تا 70 ہزار سال کے حالات اور واقعات کا پتہ لگاسکتے ہیں۔ قانون کی نظر میں تمام مذاہب برابر ہیں لیکن اس مقدمہ میں صرف ایک (من گھڑت) عقیدہ کی بنیاد پر عدالتیں یکطرفہ فیصلہ کررہی ہیں۔ صدر مجلس نے کہا کہ اس احتجاجی جلسہ کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ اس ملک کے سیکولر افراد اور دلت متحد ہوجائیں ورنہ ایک عقیدہ کی بنیاد پر مخالفین کو ختم کرکے رکھ دیا جائے گا۔ بیرسٹر اویسی نے جلسہ میں شریک افراد سے خواہش کی کہ وہ وکی لیکس کے انکشافات انٹرنیٹ پر پڑھیں جس میں بی جے پی کے قائد ارون جیٹلی نے امریکی سفیر کو کہا ہمارا ایقان ہے کہ رام وہاں پیدا نہیں ہوئے صدر مجلس نے آج اپنے خطاب میں کہا کہ بی جے پی کا پہلا وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نہیں بلکہ نرسمہا را تھا کیونکہ اس نے بحیثیت وزیر اعظم سپریم کورٹ سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا سپریم کورٹ یہ بتا سکتا ہے کہ یہاں مندر موجود تھا اور اسے توڑ کر مسجد بنائی گئی سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر اس ریفرنس کو قبول نہیں کیا۔ بیرسٹر اسد اویسی نے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسجد کی جگہ کو غیر قانونی طور پر تقسیم کردیا گیا جبکہ عدالتیں اس طرح کا عمل نہیں کرسکتیں۔ انہوں نے کہا کہ احتجاجی جلسہ عام کے انعقاد کا مقصد ووٹوں کا حصول نہیں ہے بلکہ دستور کے تحت ہمیں جمہوری انداز میں احتجاج کی جو اجازت دی گئی ہے اس کے مطابق ہم ناانصافی پر اپنی آواز بلند کررہے ہیں۔ یہ لڑائی صرف ہماری نہیں بلکہ ہندوستان کی لڑائی ہے اور ہندوستان میں بابری مسجد کی شہادت ایک صدمہ ہے اور گاندھی جی کے قتل سے بڑا سانحہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ پر صرف ولولہ انگیز تقاریر سے داد حاصل کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ اس طرح کے جلسوں سے اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنا ہے کیونکہ مسجد مسلمانوں کی پہچان اور ان کی شناخت ہے۔ قرآن مجید کے مطابق اللہ کے گھر کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس جلسہ کے ذریعہ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے کیا ہم آخرت پر یقین رکھتے ہیں نماز ادا کرتے ہیں زکو دیتے ہیں اور صرف اللہ سے ڈرتے ہیں۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ 6 دسمبر کو جمعہ کے موقع پر مکمل اور پر امن بند منائیں اور باز یابی بابری مسجد کے لئے خصوصی دعاں کا اہتمام کریں۔ پر امن طریقہ سے اپنے غم و غصہ کا اظہار کریں اگر کوئی غلط حرکت ہو تو صبر کا دامن تھامے رہیں ورنہ ملک دشمن طاقتوں کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ اس ملک کے وزارت عظمی کے عہدہ پر ایسا شخص ہر گز فائز نہیں ہوسکتا جو لوگوں کی زندگیوں میں اور کمروں میں جھانکنے والا ہے۔ گجرات حکومت کی جانب سے صرف ایک عورت کی جاسوسی کے لئے اینٹی ٹیریرازم اسکواڈ کا استعمال کیا گیا کہ وہ عورت کس جگہ جاتی ہے کیا کیا کرتی ہے۔ صدر مجلس نے گجرات کے چیف منسٹر کی جانب سے کشمیر کے جلسہ عام میں آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے مطالبہ کی مذمت کی اور کہا کہ اگر اس دفعہ کو برخاست کیا گیا تو کشمیر خود بخود اس ملک سے نکل جائے گا۔ اس طرح کی باتیں ملک کو کمزور کرنے کے لئے کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام آرٹیکل 370 کی برقراری کے لئے جدوجہد کریں۔ اس دفعہ کے تحت کوئی غیر کشمیری کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے دفعہ کی برخاستگی صرف کشمیر سے متعلق کیوں کی جارہی ہے جبکہ چھتیس گڑھ ہماچل پردیش انڈومان نکوبار اور لکشدیپ میں بھی غیر مقامی افراد اراضیات نہیں خرید سکتے۔ کیا ان ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں سے بھی قوانین کو ختم کیا جائے گا۔ صدر مجلس نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ معاشرہ کی برائیوں کا خاتمہ کریں۔ آج لڑکیوں اور خواتین کی عصمتیں محفوظ نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کا قتل نہایت آسانی سے کیا جارہا ہے۔ اس طرح کے واقعات روکنے کے لئے مشترکہ طور پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ صدر مجلس نے مساجد کے ائمہ کرام سے اپیل کی کہ وہ جمعہ کے موقع پر بابری مسجد کی بازیابی کے لئے خصوصی دعاں کا اہتمام کریں۔ مولانا سید محمد قبول پاشاہ قادری شطاری معتمد صدر مجلس علمائے دکن نے کہا کہ ملک میں مسلمانوں کے مذہبی حقوق میں مسلسل مداخلت کی جارہی ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت میں ملوث عناصر اور ان کے آلہ کار ایسے قوانین بنارہے ہیں جن سے مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ مولانا نے وقف ایکٹ کے تحت متولیان اور سجادگان کے حقوق کو تلف نہ کرنے کا مرکز سے مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی سازشیں کی جارہی ہیں جس سے مسلمانوں کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ مولانا محمد حسام الدین ثانی عامل جعفر پاشاہ مہتمم دارالعلوم حیدرآباد نے کہا کہ مسلمان اگر ایمان والے ہوجائیں تو بابری مسجد کی بازیابی آسان ہوجائے گی۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں اور اللہ کی رضا حاصل کرنے اس کی بارگاہ میں گڑ گڑائیں۔ اپنے اور اپنے گھروں کے معاملات کو خود حل کریں متحد و منظم رہیں۔ مولانا سید محمد اولیا حسینی قادری مرتضی پاشاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں سیکولرازم کی بنیاد مسلم حکمرانوں نے ڈالی تھی اور سیکولرازم کو پارہ پارہ کرنے والے ہندو حکمران ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے بابری مسجد کو شہید کیا وہ آج گمنامی میں زندگی گذار رہے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ جس طرح بابری مسجد کی شہادت رنگ لائی اور مسجد کو شہید کرنے والے ذلیل و رسوا ہورہے ہیں اسی طرح گجرات کے بے گناہ مسلمانوں کا خون بھی رنگ لائے گا اور گجرات کا حکمراں جو وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہا ہے وہ بھی ذلیل و رسوا ہوگا۔ مولانا سید مسعود حسین مجتہدی نے کہا کہ مساجد کو آباد رکھنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ ایک بار ایک جگہ پر مسجد بنائی گئی تو وہ تا قیامت مسجد ہی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ حضور اکرمؓ نے فرمایا کہ سب سے بہترین مقام مسجد ہے اور بد ترین مقام بازار ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بازاروں میں رونق ہے اور مسجدیں ویران ہیں۔ ڈاکٹر سید متین الدین قادری معتمد عمومی کل ہند تعمیر ملت نے کہا کہ ملک کو ہندو راشٹرا بنانے کا خواب دیکھنے والے 4 ہزار مساجد کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ بابری مسجد کی طرح وہ ان مساجد کو بھی شہید کرنے کے منصوبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عقیدہ کی بنیاد پر الہ آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ جمہوریت کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ ڈاکٹر متین قادری نے کہا کہ سیکولرازم کی بقا کے لئے مسلمانوں کے ساتھ انصاف ضروری ہے۔ انہوں نے مسلمانوں سے بھی اپیل کی کہ وہ باطل طاقتوں کا مقابلہ متحد رہ کر کریں۔ مولانا صفی احمد مدنی امیر جمعی اہل حدیث نے کہا کہ جو ذہنیت مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلارہی ہے اس کو کچلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک لائحہ عمل کے ذریعہ مسلمانوں کو ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مظفر نگر میں جس طرح کے واقعات ہوئے ہیں اس سے فرقہ پرستوں کے حوصلے مزید بڑھ جائیں گے۔ مولانا صفی احمد مدنی نے کہا کہ سینکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں بند کردیا گیا۔ ان کی رہائی کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا حل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا۔ جناب محمد رحیم الدین انصاری ناظم دارالعلوم حیدرآباد نے جلسہ عام میں قرار داد برائے بازیابی بابری مسجد پیش کی جسے نعرہ تکبیر کی گونج میں منظوری دی گئی۔ قرار داد میں ہندوستان کے سیکولر شہریوں سے اپیل کی گئی کہ وہ فسطائی طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ قرار داد میں بابری مسجد کے مقدمہ میں غیر معمولی تاخیر پر فکر و تردد کا اظہار کیا گیا اور مسجد کے مقدمہ کی سپریم کورٹ میں سماعت کا آغاز کرنے کی اپیل کی گئی۔ شہ نشین پر مجلسی ارکان مقننہ مسرس محمد مقتدا افسر خاں محمد معظم خاں محمد وراثت رسول خاں احمد بلعلہ سید الطاف حیدر رضوی سید امین الحسن جعفری میئر گریٹر حیدرآباد محمد ماجد حسین جناب ایس اے حسین انور جوائنٹ سکریٹری مجلس جناب سید منیر الدین احمد مختار رکن امارت ملت اسلامیہ اور دوسرے موجود تھے۔ جناب ایس اے حق نذیر انچارج شعبہ تنظیم نے کارروائی چلائی۔ آخر میں جناب سید احمد پاشاہ قادری معتمد عمومی مجلس و رکن اسمبلی چارمینار نے شکریہ ادا کیا۔ ابتدا میں قاری عبدالعلی صدیقی کی قرات کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔
رام جنم بھومی کا وجود تاریخ سے ثابت کرنے مولانا عبدالرحیم قریشی کا چیلنج
مسلمانوں کے ساتھ حکومت عدلیہ اور پولیس کے رویہ پر بیرسٹر اویسی کا اظہار تاسف
حیدرآباد۔03دسمبر: بابری مسجد کی شہادت کے 21 برس کی تکمیل کے موقع پر مسلمانان حیدرآباد نے اپنے شدید غم و غصہ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد بابری مسجد کو اسی مقام پر تعمیر کرنے کا وعدہ پورا کرے اور بابری مسجد کے مقدمہ کی جلد از جلد سپریم کورٹ میں یکسوئی کی جائے۔ دارالسلام میں متحدہ مسلم مجلس عمل کے زیر اہتمام بازیابی بابری مسجد کے سلسلہ میں منعقدہ مرکزی احتجاجی جلسہ عام جناب محمد عبدالرحیم قریشی کنوینر متحدہ مسلم مجلس عمل کے زیر صدارت میں منعقد ہوا۔ اعتماد نیوز کے مطابق اس جلسہ میں ہزاروں کی تعداد میں فرزندان اسلام شریک تھے جو نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور بابری مسجد لے کر رہیں گے کے نعرے لگارہے تھے۔ جناب محمد عبدالرحیم قریشی ایڈوکیٹ صدر مجلس تعمیر ملت نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ بابری مسجد کے مسئلہ اور مقدمہ میں ہمیشہ سچائی حق و انصاف کا خون ہوتا رہا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ جو 3 جلدوں میں ہے اس میں سے ہزاروں صفحات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ جناب عبدالرحیم قریشی نے چیلنج کیا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام جنم بھومی کا وجود کسی بھی تاریخی کتاب سے ثابت کردیا جائے تو مسلمان اس سے دستبردار ہونے کے لئے تیار ہیں۔ ہندوستان میں انگریزوں کے منحوس قدم آنے کے بعد یہ مسئلہ پیدا ہوا اس سے پہلے کبھی بھی رام جنم بھومی کا کوئی تذکرہ تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ صدر جلسہ نے کہا کہ شہنشاہ بابر کے دور میں مندر توڑ کر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت ہی نہیں ہے کیونکہ تلسی داس کی رام چرتر مانس شہنشاہ اکبر کے دور میں لکھی گئی تھی اگر ایسا ہوتا تو تلسی داس رام جنم بھومی کا تذکرہ کرتے۔ صدر جلسہ نے کہا کہ روز اول سے عدالتیں بابری مسجد کا خون کرتی رہیں۔ جس وقت بابری مسجد میں دیوار پھاند کر مورتیاں بٹھائی گئیں اس وقت ایک کانسٹبل ماتا پرساد اور سب انسپکٹر رام دوبے نے ایف آئی آر درج کیا کہ بابری مسجد کی دیوار کود کر مسجد میں مورتیاں بٹھائی گئیں لیکن ایف آئی آر کے 23 دسمبر 1949 میں اندراج سے آج تک اس ایف آئی آر پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ کے کے نیر ڈپٹی کمشنر فیض آباد مسجد میں مورتیاں بٹھانے کا ذمہ دار تھا۔ اس وقت کے کانگریسی لیڈر اکشے برہما چاری نے مرکزی حکومت کو ان سازشوں کے بارے میں لکھا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ جناب عبدالرحیم قریشی نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں یہ جھوٹ لکھا گیا کہ بابری مسجد کی تعمیر 1528 سے 1948 تک اس میں نماز ہی نہیں ادا کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ انگریزوں کے دور میں 1856 میں مسجد کے احاطہ میں ایک چبوترہ بنایا گیا جس پر مہنت نے مندر بنانے کے لئے مقدمہ دائر کیا۔ اس کے خلاف بابری مسجد کے متولی نے انگریزی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ صدر جلسہ نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کا اصل ذمہ دار آنجہانی وزیر اعظم نرسمہا را ہے کیونکہ سابق مرکزی معتمد داخلہ مدھو گوڈبولے نے اپنی کتاب میں لکھا کہ بابری مسجد کے انہدام سے قبل نومبر سے دسمبر تک پولیٹکل افیئرس کمیٹی میں یہ بار بار کہا گیا کہ بابری مسجد کی جگہ کو مرکزی حکومت اپنے کنٹرول میں لے۔ جناب عبدالرحیم قریشی نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بابری مسجد کے مقدمہ میں تاخیر نہ کی جائے اور سپریم کورٹ میں مقدمہ کی اپیل پر فوری کارروائی شروع کی جائے۔ مقدمہ کا مکمل ریکارڈ الہ آباد کی عدالت میں موجود ہے اس ریکارڈ کو جلد از جلد سپریم کورٹ منتقل کیا جائے۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ظلم کے مقابلہ کے لئے عزم و ہمت پیدا کریں۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے کہا کہ اس ملک میں انصاف کے علیحدہ پیمانے ہیں۔ عدلیہ نے مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سپریم کورٹ نے آج تک تحقیر عدالت کے مقدمہ کی سماعت نہیں کی۔ فوج کے ریٹائرڈ اعلی عہدیدار وی کے سنگھ کو تحقیر عدالت پر عدالت میں طلب کیا جاتا ہے جبکہ بابری مسجد کے مقدمہ میں تحقیر پر کوئی سماعت نہیں کی جاتی۔ صدر مجلس نے کہا کہ ممبئی میں جو بم دھماکے ہوئے اس کے تمام ملزمین کو سزا سنا دی گئی لیکن بابری مسجد کے مقدمہ میں آج تک اڈوانی ونئے کٹیار اومابھارتی مرلی منوہر جوشی اور دوسروں کو بچایا جارہا ہے۔ مسجد کی شہادت کے ذمہ داروں کی تحقیقات کے لئے سی بی آئی کو ذمہ داری دی گئی لیکن تکنیکی بنیاد پر مقدمہ کو خارج کردیا گیا جو اس ملک میں فساد کے لئے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے خاطیوں کے خلاف اپیل دائر کی گئی لیکن آج تک اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے چیلنج کیا کہ سی بی آئی اس مقدمہ میں جانبدارانہ کارروائی کرتے ہوئے اڈوانی کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلائے گئی جبکہ اگر مسلمانوں کے خلاف کوئی مقدمات ہوں تو فوری ان مقدمات کی چارج شیٹ ڈال دی جاتی ہے۔ صدر مجلس نے کہا کہ آزادی کے بعد سے آج تک ہندوستان کے مسلمانوں کو پولیس اور عدالت سے انصاف نہیں ملا۔ 400 برس جس مسجد میں نمازیں ادا کی گئیں اچانک راتوں رات قفل توڑ کر اس میں مورتیاں رکھ دی گئیں۔ اس وقت کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے کے نیر نے مرکزی حکومت کو ریڈیو پیام دیا کہ 15 پولیس جوانوں کی موجودگی میں مورتیاں رکھ دی گئیں ہائی کورٹ نے اس بات کو بھی نظر انداز کردیا۔ پولیس نے جو 60 سال پہلے خاموشی کی ایکٹنگ کی تھی وہ آج بھی جاری ہے۔ عدالت نے صرف ایک بات کو تسلیم کیا کہ رات کے اندھیرے میں مورتیاں رکھی گئیں تو پھر فیصلہ مسلمانوں کے خلاف کیسے کردیا گیا۔ تحت کی عدالتوں میں اس مقدمہ میں مکمل جانبداری اور سازش سے کام لیا گیا۔ عدالت نے مقدمہ کی سماعت کے دوران مقدمہ کے ایک فریق مسلمانوں کو بلایا تک نہیں اور صرف 45 منٹ سماعت کے بعد 30 صفحات پر مشتمل مقدمہ کا پہلے سے ٹائپ شدہ فیصلہ حوالے کردیا گیا جبکہ اس دور میں ٹائپ رائٹر پر 30 صفحات 45 منٹ میں ٹائپ ہی نہیں کئے جاسکتے تھے۔ صدر مجلس نے کہا کہ وہ کسی مذہب کے خلاف نہیں ہیں اور نہ رام جی کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے دستور کی بنیاد سیکولرازم پر رکھ دی گئی ہے لیکن 14 لاکھ سال پہلے کے واقعہ کو بنیاد بناکر اس مقدمہ کا فیصلہ کیا جارہا ہے۔ مورخین یا سائنسدان زیادہ سے زیادہ 60 تا 70 ہزار سال کے حالات اور واقعات کا پتہ لگاسکتے ہیں۔ قانون کی نظر میں تمام مذاہب برابر ہیں لیکن اس مقدمہ میں صرف ایک (من گھڑت) عقیدہ کی بنیاد پر عدالتیں یکطرفہ فیصلہ کررہی ہیں۔ صدر مجلس نے کہا کہ اس احتجاجی جلسہ کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ اس ملک کے سیکولر افراد اور دلت متحد ہوجائیں ورنہ ایک عقیدہ کی بنیاد پر مخالفین کو ختم کرکے رکھ دیا جائے گا۔ بیرسٹر اویسی نے جلسہ میں شریک افراد سے خواہش کی کہ وہ وکی لیکس کے انکشافات انٹرنیٹ پر پڑھیں جس میں بی جے پی کے قائد ارون جیٹلی نے امریکی سفیر کو کہا ہمارا ایقان ہے کہ رام وہاں پیدا نہیں ہوئے صدر مجلس نے آج اپنے خطاب میں کہا کہ بی جے پی کا پہلا وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نہیں بلکہ نرسمہا را تھا کیونکہ اس نے بحیثیت وزیر اعظم سپریم کورٹ سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا سپریم کورٹ یہ بتا سکتا ہے کہ یہاں مندر موجود تھا اور اسے توڑ کر مسجد بنائی گئی سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر اس ریفرنس کو قبول نہیں کیا۔ بیرسٹر اسد اویسی نے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسجد کی جگہ کو غیر قانونی طور پر تقسیم کردیا گیا جبکہ عدالتیں اس طرح کا عمل نہیں کرسکتیں۔ انہوں نے کہا کہ احتجاجی جلسہ عام کے انعقاد کا مقصد ووٹوں کا حصول نہیں ہے بلکہ دستور کے تحت ہمیں جمہوری انداز میں احتجاج کی جو اجازت دی گئی ہے اس کے مطابق ہم ناانصافی پر اپنی آواز بلند کررہے ہیں۔ یہ لڑائی صرف ہماری نہیں بلکہ ہندوستان کی لڑائی ہے اور ہندوستان میں بابری مسجد کی شہادت ایک صدمہ ہے اور گاندھی جی کے قتل سے بڑا سانحہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ پر صرف ولولہ انگیز تقاریر سے داد حاصل کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ اس طرح کے جلسوں سے اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنا ہے کیونکہ مسجد مسلمانوں کی پہچان اور ان کی شناخت ہے۔ قرآن مجید کے مطابق اللہ کے گھر کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس جلسہ کے ذریعہ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے کیا ہم آخرت پر یقین رکھتے ہیں نماز ادا کرتے ہیں زکو دیتے ہیں اور صرف اللہ سے ڈرتے ہیں۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ 6 دسمبر کو جمعہ کے موقع پر مکمل اور پر امن بند منائیں اور باز یابی بابری مسجد کے لئے خصوصی دعاں کا اہتمام کریں۔ پر امن طریقہ سے اپنے غم و غصہ کا اظہار کریں اگر کوئی غلط حرکت ہو تو صبر کا دامن تھامے رہیں ورنہ ملک دشمن طاقتوں کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ اس ملک کے وزارت عظمی کے عہدہ پر ایسا شخص ہر گز فائز نہیں ہوسکتا جو لوگوں کی زندگیوں میں اور کمروں میں جھانکنے والا ہے۔ گجرات حکومت کی جانب سے صرف ایک عورت کی جاسوسی کے لئے اینٹی ٹیریرازم اسکواڈ کا استعمال کیا گیا کہ وہ عورت کس جگہ جاتی ہے کیا کیا کرتی ہے۔ صدر مجلس نے گجرات کے چیف منسٹر کی جانب سے کشمیر کے جلسہ عام میں آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے مطالبہ کی مذمت کی اور کہا کہ اگر اس دفعہ کو برخاست کیا گیا تو کشمیر خود بخود اس ملک سے نکل جائے گا۔ اس طرح کی باتیں ملک کو کمزور کرنے کے لئے کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام آرٹیکل 370 کی برقراری کے لئے جدوجہد کریں۔ اس دفعہ کے تحت کوئی غیر کشمیری کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے دفعہ کی برخاستگی صرف کشمیر سے متعلق کیوں کی جارہی ہے جبکہ چھتیس گڑھ ہماچل پردیش انڈومان نکوبار اور لکشدیپ میں بھی غیر مقامی افراد اراضیات نہیں خرید سکتے۔ کیا ان ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں سے بھی قوانین کو ختم کیا جائے گا۔ صدر مجلس نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ معاشرہ کی برائیوں کا خاتمہ کریں۔ آج لڑکیوں اور خواتین کی عصمتیں محفوظ نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کا قتل نہایت آسانی سے کیا جارہا ہے۔ اس طرح کے واقعات روکنے کے لئے مشترکہ طور پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ صدر مجلس نے مساجد کے ائمہ کرام سے اپیل کی کہ وہ جمعہ کے موقع پر بابری مسجد کی بازیابی کے لئے خصوصی دعاں کا اہتمام کریں۔ مولانا سید محمد قبول پاشاہ قادری شطاری معتمد صدر مجلس علمائے دکن نے کہا کہ ملک میں مسلمانوں کے مذہبی حقوق میں مسلسل مداخلت کی جارہی ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت میں ملوث عناصر اور ان کے آلہ کار ایسے قوانین بنارہے ہیں جن سے مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ مولانا نے وقف ایکٹ کے تحت متولیان اور سجادگان کے حقوق کو تلف نہ کرنے کا مرکز سے مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی سازشیں کی جارہی ہیں جس سے مسلمانوں کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ مولانا محمد حسام الدین ثانی عامل جعفر پاشاہ مہتمم دارالعلوم حیدرآباد نے کہا کہ مسلمان اگر ایمان والے ہوجائیں تو بابری مسجد کی بازیابی آسان ہوجائے گی۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں اور اللہ کی رضا حاصل کرنے اس کی بارگاہ میں گڑ گڑائیں۔ اپنے اور اپنے گھروں کے معاملات کو خود حل کریں متحد و منظم رہیں۔ مولانا سید محمد اولیا حسینی قادری مرتضی پاشاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں سیکولرازم کی بنیاد مسلم حکمرانوں نے ڈالی تھی اور سیکولرازم کو پارہ پارہ کرنے والے ہندو حکمران ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے بابری مسجد کو شہید کیا وہ آج گمنامی میں زندگی گذار رہے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ جس طرح بابری مسجد کی شہادت رنگ لائی اور مسجد کو شہید کرنے والے ذلیل و رسوا ہورہے ہیں اسی طرح گجرات کے بے گناہ مسلمانوں کا خون بھی رنگ لائے گا اور گجرات کا حکمراں جو وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہا ہے وہ بھی ذلیل و رسوا ہوگا۔ مولانا سید مسعود حسین مجتہدی نے کہا کہ مساجد کو آباد رکھنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ ایک بار ایک جگہ پر مسجد بنائی گئی تو وہ تا قیامت مسجد ہی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ حضور اکرمؓ نے فرمایا کہ سب سے بہترین مقام مسجد ہے اور بد ترین مقام بازار ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بازاروں میں رونق ہے اور مسجدیں ویران ہیں۔ ڈاکٹر سید متین الدین قادری معتمد عمومی کل ہند تعمیر ملت نے کہا کہ ملک کو ہندو راشٹرا بنانے کا خواب دیکھنے والے 4 ہزار مساجد کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ بابری مسجد کی طرح وہ ان مساجد کو بھی شہید کرنے کے منصوبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عقیدہ کی بنیاد پر الہ آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ جمہوریت کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ ڈاکٹر متین قادری نے کہا کہ سیکولرازم کی بقا کے لئے مسلمانوں کے ساتھ انصاف ضروری ہے۔ انہوں نے مسلمانوں سے بھی اپیل کی کہ وہ باطل طاقتوں کا مقابلہ متحد رہ کر کریں۔ مولانا صفی احمد مدنی امیر جمعی اہل حدیث نے کہا کہ جو ذہنیت مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلارہی ہے اس کو کچلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک لائحہ عمل کے ذریعہ مسلمانوں کو ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مظفر نگر میں جس طرح کے واقعات ہوئے ہیں اس سے فرقہ پرستوں کے حوصلے مزید بڑھ جائیں گے۔ مولانا صفی احمد مدنی نے کہا کہ سینکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں بند کردیا گیا۔ ان کی رہائی کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا حل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا۔ جناب محمد رحیم الدین انصاری ناظم دارالعلوم حیدرآباد نے جلسہ عام میں قرار داد برائے بازیابی بابری مسجد پیش کی جسے نعرہ تکبیر کی گونج میں منظوری دی گئی۔ قرار داد میں ہندوستان کے سیکولر شہریوں سے اپیل کی گئی کہ وہ فسطائی طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ قرار داد میں بابری مسجد کے مقدمہ میں غیر معمولی تاخیر پر فکر و تردد کا اظہار کیا گیا اور مسجد کے مقدمہ کی سپریم کورٹ میں سماعت کا آغاز کرنے کی اپیل کی گئی۔ شہ نشین پر مجلسی ارکان مقننہ مسرس محمد مقتدا افسر خاں محمد معظم خاں محمد وراثت رسول خاں احمد بلعلہ سید الطاف حیدر رضوی سید امین الحسن جعفری میئر گریٹر حیدرآباد محمد ماجد حسین جناب ایس اے حسین انور جوائنٹ سکریٹری مجلس جناب سید منیر الدین احمد مختار رکن امارت ملت اسلامیہ اور دوسرے موجود تھے۔ جناب ایس اے حق نذیر انچارج شعبہ تنظیم نے کارروائی چلائی۔ آخر میں جناب سید احمد پاشاہ قادری معتمد عمومی مجلس و رکن اسمبلی چارمینار نے شکریہ ادا کیا۔ ابتدا میں قاری عبدالعلی صدیقی کی قرات کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔