نئی دہلی، 23 مارچ (یو این آئی)وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے آج تبدیلی مذہب کی ضرورت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ملک کی آبادی کی تناسب کو تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔انہوں نے عیسائی مشنوں کا نام لئے بغیر کہا کہ کوئی شخص کسی کا مذہب تبدیل کرنے کی کوشش کے بغیر بھی انسانیت کی خدمت کرسکتا ہے ۔وزیر داخلہ نے اقلیتوں کو یہ یقین بھی دلایا کہ ان کی سلامتی حکومت کے لئے اولین چیلنج ہ
ے اور وہ ان کے تحفظ اور سلامتی کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ مسٹر سنگھ نے ریاستی اقلیتی کمیشن کے سربراہان کی سالانہ کانفرنس میں افتتاحی خطبہ دے رہے تھے ۔وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ ‘‘گھرواپسی اور تبدیلی مذہب’’ کے معاملہ پر کھلی بحث چاہتے ہیں انہوں نے شرکا سے کہا کہ وہ اس معاملہ پر غور کریں اور بلاخوف و خطر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔مسٹر سنگھ نے حال ہی میں کئے گئے حملوں کے پس منظر میں بولتے ہوئے کہا ‘‘ ہم دوسرے لوگوں کا مذہب تبدیل کیوں کرائیں اگر ہم ان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس کے بغیر بھی یہ کام کرسکتے ہیں۔ کیا ہم انسانوں کی خدمت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں اپنے مذہب میں داخل کرسکیں۔’’آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے حال ہی میں راجستھان کے بھرت پور ضلع کے ایک گاؤں کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مدد ٹریسا کی خدمت کا جذبہ بے لوث نہیں تھا ان کا مقصد لوگوں کو عیسائی بنانا تھا۔ اس معاملہ پر پارلیمنٹ میں کافی لے دے ہوئی تھی اور حکومت کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وزیر داخلہ نے کہا ‘‘ دوسرے ملکوں میں اقلیتیں یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ تبدیلی مذہب کو روکا جائے مگراس ملک میں ہم اس کے لئے قانون بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اصل پوائنٹ یہ ہے کہ ‘‘کیا کسی مذہب کے لوگوں کا مذہب تبدیل کئے بغیر بقا ممکن ہے اور کسی کو ملک کی آبادی کا تناسب بدلنا چاہئے ۔ ملک کو اس کی شناخت اورا س کی تہذیب برقرار رہنے دیں۔’’‘‘اگر مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے تو کیا ہوا انہیں ان کے مذہب پر چلنے دو۔’’ وہ ہندو تنظیموں کے اس خوف کے حوالے سے یہ بات کہہ رہے تھے جن کا کہنا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اکثریت کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔مسٹر سنگھ نے کہا کہ وزیر داخلہ کہ بطور وہ یہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی بے انصافی اور عدم سلامتی کا شکار ہے تو مرکز تحفظ کا احساس بحال کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے حالانکہ تحفظ ریاستی موٖضوع ہے ۔انہوں نے کہا کہ ‘‘آپ میرے کام کرنے کے طریقہ پر اعتراض کرسکتے ہیں مگر میری نیت پر شک نہیں کرسکتے ۔’’ وزیر داخلہ چاہتے ہیں کہ ریاستی اقلیتی کمیشن تبدیلی مذہب اور ‘‘گھرواپسی’’ پر تبادلہ خیال کریں اور یہ سوچے بغیر کہ اس سے حکومت خوش ہوگی یا ناخوش اپنے خیالات کا اظہار کریں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت کے علاوہ سول سوسائٹی بھی غلط فہمیوں کے ازالہ میں اپنا رول نبھاسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تبدیلی مذہب کے بارے میں تمام غلط فہمیاں دور ہوجائیں تاکہ اکثریتی اور اقلیتی فرقہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہیں۔ مسٹرسنگھ نے کہا ‘‘ہم کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہیں، ہم ایک دوسرے سے مل جل کر کیوں نہیں رہ سکتے ۔’’انہوں نے زور دے کہا کہ سب کے لئے ایک ہی خدا ہے اس لئے کسی کو بھی دوسرو ں پر بالادستی اور فوقیت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہیں۔مسٹر سنگھ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنی نوعیت روایات اپنی گوناگوں اور سب کو گلے لگانے والی اقدار والے ہندوستان جیسے ملک کے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جس سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے سے رہ سکیں۔ انہوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ یہودیوں اور عیسائیوں جیسے مختلف مذاہب کے ماننے والے کس طرح قدیم زمانہ میں ہندوستان آئے اور یہاں جذب ہوگئے ۔