دبئی: حال ہی میں اقوام متحدہ کے مردو زن میں مساوات اور حقوق نسواں کے لیے سرگرم ادارے کی جانب سے ایک سروے کے دوران جب عرب ممالک کے نوجوانوں سے جب ان کی والدہ کے نام دریافت کیے، تو ان میں سے بیشتر نے اپنی والدہ کا نام ظاہر کرنا معیوب سمجھا۔ کچھ نے اسے ’شرمندگی‘ کا باعث ‘ قرار دیا۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے ایک مہم’’اپنی والدہ کا نام بتائیں‘‘ کے عنوان سے شروع کی گئی تھی، جس کے دوران مصرکے نوجوانوں سے یہ سوال پوچھا گیا تو ان کا رد عمل کافی حد تک یکساں تھا۔ مصر کے مختلف عمر کے افراد سے یہ استفسار کیا گیا تو ان میں سے زیادہ تر افراد نے اپنی والدہ کا نام بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں
ماں کا نام لینا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
کچھ نوجوانوں نے ماں کا نام ظاہر نہ کرنے کہ وجہ یہ بتائی کہ دوسرے لوگ پھر اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کوئی دوسرا کہہ سکتا ہے کہ ’’اے فلانی کے بیٹے‘‘۔ گویا یہ ایک تحقیر آمیز جملہ ہے جس میں دوسرے کی توہین مقصود ہوتی ہے۔
بعض نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی والدہ کا نام لینا قطعی طورپر معیوب خیال کرتے ہیں۔ اس لیے اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ البتہ باپ کا نام لینے میں وہ زیادہ عار محسوس نہیں کرتے۔
مصر کے ایک ساٹھ سالہ شخص نے بتایا کہ بچپن میں وہ دوسروں کی زبان سے اپنی والدہ کا نام سن کر رو دیا کرتے تھے۔