شہر بھٹکل میں عالمِ اسلام ہی کی تاریخ میں پہلی بار نابینا حفاظ کرام کے مابین گذشتہ دودنوں سے حفظ مسابقہ جاری تھا جو کل رات اپنے اختتام کو پہنچا: حفاظ و علماءقوم وملت کے امین ہوتے ہیں اور اس میں اگر حفاظ نابینا ہوں تو یہ قرآن کریم کا اعجاز اور معجزہ ہے۔ جب پوری دنیا قرآن کریم کی آیتوں کو حذف کرنے کا مطالبہ کررہی ہو ایسے حالات میں اس قسم کے تاریخی مسابقے پورے عالم کو وحدانیت
ا پیغام دیتے ہیں، نابینا حفاظ کرام کی حواصلہ افزائی ہماری ذمہ داری ہے اور جب ہم کسی اُردو اخبار یا کسی بھی زبان کے صحافی ہوں تو ذمہ داری میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ، لہٰذا میں نے بطور صحافی بساط بھر ان کی حوصلہ افزائی کے لیے اخبارات میں خبروں بھیج کر ثواب کا تھوڑا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ، آپ حضرات سے بھی کوشش کرتاہوں کہ رپورٹ کے طوالت پر نظر کئے بنا اپنے موقر اخبارات میں جلی سرخیوں میں اس خبرکو شائع کرکے نہ صرف نابینا حفاط کی حوصلہ افزائی کریں گے بلکہ ثواب دارین میں اپنابھی نام درج کرائیں گے (جزاک اللہ خیرا )
بھٹکل میں جمعیة الحفا ظ کی جانب سے منعقدہ قرآنی روحانی محفل کا خوبصورت آغاز واختتام
ملک بھر سے نابینا حفاظ کی شرکت: حجرو شر بنے اس کے گواہ۔ روحانیت کی تازگی ابھی بھی تازہ
قرآن کی لذت سے ہم تمہیں محروم نہیں رکھ سکتے:اللہ رب العزت کا نابینا حفاظ کرام کو انعام
بھٹکل 28مارچ (فکروخبرنیوز ) عالمی سطح کا تاریخی حفظ قرآن مسابقہ مابین نابینا حفاظ کرام بالآخر کل رات پوری آب و تاب اور شاندار انداز میں اپنے الگ نوعیت کے ساتھ تاریخ میں اپنی تاریخ کو رقم کرکے اختتام پذیر ہوئی۔مولانا نعمت اللہ ندوی صدر جمعیة الحفاظ کے زیرِ صدارت منعقد ہونے والے دو روزہ مسابقے میں لگ بھگ بیس نابینا حفاظ کرام نے شرکت کی تھی اور دو روزہ مسابقے میں امتحان لینے کے لئے بھی ملک بھر سے ممتحن کو لایا گیا تھا۔ اول انعام پانے والے حافظ محمد انیس ابن برہان الدین بڈو (بھٹکل ) دوسرے نمبر پر حافظ سید نورالحق ابن سید نواز صاحب (بنگلور ) اورتیسرے نمبر پر محمد اشفاق ابن ابوبکر ایم ایچ چنا (بھٹکل) رہے ۔ جمعیة کی جانب سے اول انعام 50ہزار دوسرا انعام30ہزار اور تیسرے انعام کے طور پر 20ہزار کا اعلان کیا گیا تھا، مگر دو دن چلنے والے اس مسابقے سے عوام اور اہلِ خیرحضرات اتنے خوش ہوئے کہ عوام کی جانب سے پہنچے ہدیات کی بنا پر پہلا انعام 94ہزار دوسرا انعام 62ہزار اور تیسرا انعام 45ہزار پر رکا جب کہ ہر مساہم کو 21ہزار روپئے دئے گے، اس کے علاوہ سرٹیفکٹ اور دیگر انعامات بھی ہیں۔ مسابقے کی اس آخری نشست میں شہر بھٹکل کی خاتون نابینا دو حفاظ کے سرپرستان کو انعامات اور خصوصی اعزازات سے نوازا گیا وہیں شہر بھٹکل سے تعلق رکھنے والے جناب ظفرالحسن سدی باپا کو جنہوں نے اپنے عمر کے 56سال میں اپنی زندگی کے تمام تر مشغولیات کے باوجود حفظ قرآن مکمل کرکے حافظوں میں اپنا شمار کرایا اور اپنا دیرینہ خواب پورا کیا ان کو خصوصی اعزا ز دیا گیا۔ علاوہ ازیں اسی اجلاس میں مولانا نعمت اللہ ندوی صدر جمعیة الحفاظ کی تین کتابوں کا اجراءعرب مہمانوں کے ہاتھوں عمل میں لایا گیا۔ آخری نشست کی نظامت مولانا عبدالعلیم خطیب نے انجام دی جب کہ مولانا سمعان خلیفہ ندوی نے شکریہ کہ کلمات کے ساتھ بیچ میں کچھ دیر کے لیے نظامت سنبھالی ، جنرل سکریٹری مولانا عرفان ندوی نے جن ظفرالحسن سدی باپا کے حفظ قرآن کے لئے کی گئی کاوشوں کو اپنے جملوں میں بیان کیا تھا۔ مولانا رحمت اللہ ندوی نے تنائج کا اعلان کیا اسی اجلاس میں مہمانان کو علماءشہر کے ہاتھوں عزت افزائی کی گئی اور مومنٹو پیش کئے گئے۔ سرزمین بھٹکل میں گذشتہ دو دونوں سے روحانیت کی جو محفلیں سج رہی تھی بالآخر آج رات پوری کامیابی و کامرانی کے ساتھ اختتام کو پہنچی ۔ پورے شہر بھٹکل کو نہیںبلکہ بھٹکل و مضافات نہ صرف شہر بلکہ ریاست سے بڑھ کر پورے ملک میں اس روحانیت کے سرچشموں کا اثر محسوس کیا جاتا رہے گا۔دو دن کی یہ روحانیت کی کشتی پورے آب و تاب کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہی۔ یہ روحانیت کا پرندہ دو دن تک شہر بھٹکل میںاپنے پروں کے ذریعہ گوشے گوشے میں اپنا پیغام پھیلاتارہا۔ کیا یہ بات تعجب خیز نہیں اور آپ کو حیرت میں نہیں ڈال رہی ہے کہ تاریخِ اسلام اور عالمِ اسلام اور ملکِ ہند کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہے کہ نابینا حفاظ کرام کے مابین حفظ قرآن کا مسابقہ بھٹکل میں منعقد کیاگیا ۔سوائے یکا دکا نجی چینل ایسے ہیں جنہوں نے اپنی بساط بھر کوشش کی تھی مگر اس کے علاوہ کسی نے بھی اس انداز میں مقابلہ باقاعدہ پورے اہتمام کے ساتھ منعقد نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دو دن تک چلی اس روحانیت کی مجلس کی برکتیں اور رحمتیں لوٹنے کے لئے شہر بھر سے تشنگانِ علومِ نبوت اور پرستاران قرآن جوق در جوق آتے رہے اوملک بھر کے قریب بیس نابینا حفاظ کی ہمت افزائی انکی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اپنے ایمان کو تازہ کرنے کے لئے تمام تر مجلسوں میں شریک ہوتے رہے ، اس روحانیت والی مجلس کے گواہ یہاں کے حجر و شجر بنے تو وہیں ،اس کی برکتوں کا اثر ہواﺅں اور فضاﺅں میں بھی محسوس کیا جاتارہا اور کیا جاتا رہے گا۔ یہ روحانیت کی نشست قیامت تک یاد رکھی جاتی رہے گی اور وہ زمین بھی جامعہ اسلامیہ جامعہ آباد کی ترقیات ،کے لیے دعائیں کرتی رہے گی جس کے سپوتوں نے جو اس کے پیٹھ پر ایک تاریخ رقم کردیا ۔ اس کی خوشبو میں مٹھاس بھردی ، اس کے انگ انگ کو معطر کردیا۔ پہلے سے لے کر آخری نشست تک ایسا ہی منظر تھا جو دلوں کو لبھارہاتھا تو دوسری جانب دل کو تسکین پہنچارہا تھا۔ اور اختتام نشست میں تو یوں محسوس ہوا کہ خود فرشتے زمین پر اُتر کر حفاظ کرام اور شرکاءجلسہ کو سلام پیش کررہے ہوں ۔
حصہ لینے والے تمام نابینا حفاظ کرام کے اسماءگرامی کچھ اس طرح ہیں
۱) عبدالواحد ۔اکل کوا (مہاراشٹرا)عبدالرحمٰن ۔لکھنوء(یوپی) غفران لکھنو (یوپی) ظفیرالدین ،۔مدھوبنی، بہار ، سید الاسلام ،کلکتہ( بنگال)نورالحق ،بنگلور (کرناٹک ) اشفاق چنا ۔بھٹکل (کرناٹک ) عبدالماجدبھیم نگر (گجرات ) امان اللہ مدھوبنی (بہار) عثمان، میوات (ہریانہ ) مشرف (جھارکھنڈ ) انیس ۔بھٹکل (کرناٹک )رئیس ، کنور (کیرلا) عارف ، رتنا گری (مہاراشٹرا ) فاروق ۔ دیوبند (یوپی) عبدالسمیع ، شرور (اُڈپی ) کرناٹک
قرآن کریم کا وہ معجزہ جس کو آنکھوں نے دیکھا
دارلعلوم عین الھدی ملاپورم کیرلا کے حفاظ نے حیرت میں ڈال دیا
اس آخری نشست میں قرآن کریم جیتا جاگتا ایک زندہ معجزہ کچھ اس انداز میں دیکھنے کو ملا کہ ہر شخص ششدر تھا۔ دراصل دارالعلوم عین الھدی ملاپورم کیرلا کے چار حفاظ نے ایک ہی سورت کو پیچھے سے لگاتار اور اسی سورت کو واپس آگے سے بنا چوکے، بنا بھولے بتا کر حیرت میں ڈالا وہیں ، سامعین میں سے کوئی شخص قرآن سے بیچ میں کوئی آیت پڑھتا تو یہ حفاظ اس کی سورت نمبر ، جزءنمبر، جملہ آیتوں کی تعداد اور جو آیت پڑھی گئی اس کی کتنی تعداد ہے بتا کر قرآن کریم کے ایک اور معجزہ کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ حافظ محمد انس ، ہارون ٹی اے، محمد اور منزل نامی ان حفاظ کے اس کارنامے سے جو مولانا وصی اللہ ڈی ایف کے مختلف سوالوں کے جوابات بنا اٹکے دے رہے تھے دیکھ کر یوں دنگ رہے کہ ان حفاظ پر روپیوں کی بھرمار کردی اور اللہ نے ان حفاظ کو قریب لاکھوں روپئے اس مجلس میں بطور انعام فراہم کرنے کا انتظا م کردیا۔
بھٹکل کی سرزمین پورے عالم اسلام میں یاد رکھی جاتی رہے گی©: مولانا عبدالرحیم فلاحی
مولانا عبدالرحیم فلاحی اکل کوا جو اس اجلاس کے مہمان ِ خصوصی تھے اس مناسبت سے اپنے دلدوز خطاب میں آخری امت کو سونپی گئی نعمت کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی سلامتی اس پر ہے اور اللہ خود اس پر سلام پیش کرتا ہے۔ حضرت آدم علیہ کے تذکرے کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح حضرت آدم کو اللہ نے نعمت سے نواز اور جزا دیا اسی انداز میں جمعیة الحفاظ کو مہمانوں کا ضرور بدلہ دے گا جنہوں حفاظ کرام کرام کو پورے ملک سے جمع کرکے نہ صرف ان کا خیال رکھا بلکہ بہترین مہمان نواز ی کی۔ اسلامی تاریخ میں پہلی بار اپنی نوعیت کے حفظ مسابقے کے انعقاد پر مولانا نے کہا کہ صرف جامعہ اسلامیہ جامعہ آباد بھٹکل کے سپوت،جمعیة الحفاظ کے صدر مولانا نعمت اللہ ندوی یا اس تنظیم کے اراکین و ذمہ داران ہی نہیں بلکہ پورا بھٹکل اس لائق تحسین ہے اس سرزمین پر اس طرح کے جلسہ کی پہلی بنیاد پڑی۔ جو اول ہے وہ اول ہے ۔ سرزمےن بھٹکل کا اےک اےک نوجوان اس پروگرام کے انعقاد پر مبارکبادی کے لائق ہےں ، مولانا موصوف نے دورانِ تا¿ثرات کہا کہ معذورےن کی تےن قسمےں ہے اےک وہےں جو آنکھوں کی بےنائی سے محروم ہےں جنہوں نے آپ کے سامنے قرآن کا اےک اعجاز پےش کےا ۔ دوسرے وہ جو جسم کے کسی عضو سے محروم ہےں اور تےسرے جو عام بےماری کے شکار ہےں اس تناظر مےں مولانا نے کہا کہ اس دوسرے بےماری کے شکار حفاظ کے مابےن بھی مسابقہ کا انعقاد کےا جائے اور معذورےن کی اےک اکےڈمی قائم کی جائے جس کے ذرےعہ قرآن کی حفاظت کا کام انجام دےا جائے۔اپنے خطاب کے آخر مےں مولانا نے اس جلسہ مےں مولانا غلام محمد وستانوی صاحب مدظلہ العالی کا پےغام سناےا ۔
اتنی تعداد میں لوگوں کی شرکت قرآن سے وابستگی کا کھلا ثبوت ہے:مولانا محمد صادق ندوی
ہمیشہ اسٹیج اور پروگراموں سے دور رہنے والے اور شہر بھٹکل میں شبینہ مکاتب کے قیام کا تصور دلانے والے مشہور عالم دین مولانا محمد صادق صاحب اکرمی ندوی جنہوں نے بڑی عمر میں حفظ قرآن کیا ان کا اسٹیج پر تشریف لائے تو پورا مجمع دم بخود تھا، اور قرآن کے اس اعجاز کے واضح ثبوت کو صاف دیکھ رہے تھے کہ قرآن نے مولانا موصوف دامت برکاتہم کو اسٹیج تک آکر اپنے دلی باتوں کو سامنے رکھنے پر مجبو ر کیا مولاناموصوف نے اس موقع پر اس پروگرام کے انعقاد کو تارےخی کارنامہ قرار دےتے ہوئے کہا کہ جو دنےا والوں نے سوچا نہےں تھا وہ جمعےت الحفاظ بھٹکل نے کرکے دکھاےا ہے لہذا قرآن سے ہماری وابستگی ہونی چاہےے۔ ےہ اتنا بڑا لوگوں کا ہجوم قرآن سے وابستگی کی دلےل ہے لےکن صرف اتنا کافی نہےں بلکہ قرآن سے اپنی دلی وابستگی کا ثبوت حقےقت مےں اس وقت ہوگا جب ہم قرآن کے احکامات پر عمل کرنے والے بنےں۔ موجودہ حالات کے تناظر مےں کہا کہ قرآن کا ادب کم ہوتا جارہا ہے ، اس کو داےاں ہاتھ سے نہ اٹھاےا جائے۔ بغےر وضو کے اس کو ہاتھ نہ لگاےا جائے وغےرہ وغےرہ ےہ قرآن کے آداب ہےں جو گذرتے اےام کے ساتھ ختم ہوتے جارہے ہےں اور اس کے ساتھ ساتھ تلاوتِ قرآن اور اس کو سمجھنے کی ضرورت بھی ہے ۔ آج ہمارے پاس ہر چےز کے لےے وقت ہے اور وقت نہےں ہے تو صرف قرآن کی تلاوت کے لےے نہےں ہےں ۔ کامےابی چاہتے ہےں تو ہمےں قرآن کی تلاوت کے لےے وقت نکالنا پڑے گا۔
آخری نشست میں کس نے کیا کہا:
اللہ نے قرآن کی لذت سے نابینا حفاظ کرام کو محروم نہیں کیا: مولانا الیاس ندوی
جنرل سکرےٹری مولانا ابوالحسن ندوی اسلامک اکےڈمی واستاد جامعہ اسلامےہ بھٹکل مولانا محمد الےاس ندوی نے اپنے دلدوز بیان میں کہا کہ جن نابینا حفاظ کرام کو سیب کا رنگ نہیں معلوم یہ نہیںمعلوم کہ دنیا کیسی ہے وہ خود کیسے دکھتے ہیں ،مگردنیا کی لذتوں کو محسوس کرنے اور دیکھنے نعمت سے محروم نابینا حفاظ کرام کو اللہ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ وہ قرآن کی لذت سے حفاظ کو محروم نہیں کیا۔ صرف قرآن ہی کا معجزہ ہے کہ اس طرح کا مسابقہ ےہاں منعقد کےا جارہا ہے ۔ مجھے آج حافظِ قرآن نہ ہونے کا احساس اور درر کچھ اسی طرح ہورہاہے جیسے ایک یتیم بچے کو اپنی یتیمی کا ہوتا ہے ۔ مولانا موصوف نے اپنے دلدوز اور پرسوز آواز میں اس درد کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ حفظ کے تعلق سے تارےخ مےں دو احساس دلائے گئے۔ اےک سلطنتِ عثمانےہ کے دور مےں جب کعبة اللہ کی تعمےر کے وقت کام کرنے کے لےے حافظِ قرآن کا ہونا ضروری تھا اور اےک آج جمعےة الحفاظ بھٹکل نے یہ اعلان کیا کہ مسابقے کے مناسبت سے ہر کام حفاظ ہی کریں گے و ہ چاہے میدا میں جھاڑو لگانا ہو یامہمانوں کی میزبانی اس کو دیکھ کر ہمےں آج حافظ قرآن نہ ہونے کا احساس ہورہا ہے ۔ مولانا نے مزےد کہا کہ حافظ قرآن کو جو اعزاز دےا جائے وہ الگ ہے مزےد ان کے والدےن کو بھی اعزاز سے نواز جائے گا اور ان کو نور کا تاج پہناےا جائے گا۔ مکاتب کی اہمےت پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا کا کہنا تھا کہ آج ہندوستان مےں جو بھی دےن کے تعلق سے بےداری نظر آرہی ہے وہ ان کی مکاتب کی برکت ہے ۔ مولانا نے مثال دےتے ہوئے کہا کہ مےں نے مصر مےں قراء، مفسر ےن اور بڑی تعداد مےں حفاظ موجود ہےں لےکن انقلاب نہ آنے کی وجہ مےرے خےال مےں ےہ ہوسکتی ہے کہ وہاں مکاتب کا قےام نہےں ہےں ۔مےں نے بہت تلاش کےا صرف اےک جگہ کے علاوہ کہےں پر بھی مکتب نہےں ملا۔ مزید کہا گیا کہ قرآن ھدی للناس بھی ہے اور ھدی للمتقےن بھی ہے ، ان لوگوں کے لےے ہداےت ہے جن تک اس قرآن کا پےغام نہےں پہنچا اورمتقےن کے لےے ہداےت اس طور پر ہے کہ اس مےں ہمارے اےمان بڑھانے کا ذرےعہ ہے ۔افسوس کے اظہار کے ساتھ آج سماج میں سحر کو لے کر یقین کئے جانے پر سخت الفاظوں میں مولانا نے کہا کہ آج قرآنی تعلےمات نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ یقین بالقدر میں کمتری آرہی ہے، کچھ بھی ہوجائے تو اس کو فوری سحر کا نتیجہ کہاجاتا ہے۔ جب کہ ایک ایمان والے کا ایمان یہ ہوناچاہئے کہ جو بھی ہوتا ہے وہ اللہ کی منشاءسے ہوتاہے ، بےماری لاحق ہونے پر قدر کے فےصلہ پرذہن کے بجائے سحر پر جاتا ہے جبکہ سحر سے بچنے کا سامان قرآن کرےم موجود ہے کہ جو صبح وشام معوذتےن پڑھے گا اس پر کبھی سحر کا اثر نہیں ہوگا۔
غیروں تک بھی قرآن کے پیغام کو پہنچانے کی کوشش کریں:مولانا عبدالباری ندوی
مہتمم جامعہ اسلامےہ بھٹکل وامام وخطےب جامعہ اسلامےہ بھٹکل مولانا عبدالباری ندوی نے کہا کہ زمےن قرآن کرےم کا بوجھ سہنے سے عاجز تھے ، اللہ تعالیٰ نے اس کا نظام ےہ بناےا کہ فرشتوں مےں سب سے بڑی قوت والا فرشتہ حضرت جبرئےل امےن کے ذرےعہ نازل فرماےا اور آپ صلی اللہ علےہ وسلم کے قلبِ اطہر پر نازل فرماےا اور زبانِ مبارک سے اس کو جاری فرماےا ۔ مولانا نے کہا کہ اس کتاب کی لذت کسی اور کتاب مےں نہےں مل سکتی لہذا جو احکامات اس مےںبےان کےے گئے ہےں ان کو اپنی زندگی مےں اختےار کرتے ہوئے بقےہ زندگی گذارنے کی فکر کرےںاور اس پےغام کو دوسروں تک پہنچانے کی فکر کرےں ۔ قصور ان لوگوں کا نہےں ہے ، قصور ہمارا ہے ہم نے غےروں تک قرآن کا پےغام نہےں پہنچاےا۔آج ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم سورہ فاتحہ ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتے جب کہ گذشتہ دو دن سے ملک بھر کے نابیناحفاظ کرام نے وہ کارنامہ کر دکھایا کہ عقل حیران ہے ، آنکھوںکی بینائی سے محروم کوئی کتابت کررہاہے کوئی ، امامت کررہاہے ، کوئی کسی مدرسہ کا ناظم ہے ، اور ہم آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اس کا احساس نہیں ،مولانا نے حاضرین کی آنکھیں کھولتے ہوئے کہا کہ اس محفل سے اُٹھیں تو توبہ کرکے اُٹھیں اور پھر یہ فیصلہ لے کر اُٹھیں اپنے گھر میںکم سے کم دو افراد کے لیے حافظ و عالم کے لیے مختص کردیں گے۔ قرآن صرف تلاوت کے لیے نہیں بلکہ اس کو یاد کرنے اس کو تلاوت کرنے ، اس پر تدبر کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے غیر مسلم بھائیوں تک بھی اس کے پیغام کو عام کریں ۔
قرآن کرےم ہم حفظ نہےں کرسکتے تو کم ازکم اس کو دےکھ کر ےاد کرنے کی کوشش کرےں: مولانا خواجہ ندوی مدنی
قاضی خلیفہ جماعت المسلمین اوراستاد حدےث جامعہ اسلامےہ بھٹکل مولانا خواجہ ندوی مدنی نے اس موقع پر حافظ قرآن کی نسبت اور نابینا حفاظ کے تئیں تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے جمعیة الحفاظ کے صدر مولانا نعمت اللہ ندوی اور جنرل سکریٹری، کنوینر ،معاون سکریٹری کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ قرآن جس آسانی کے ساتھ ےاد کےا ہے ضرورت اس بات کی ہے اس کوےاد رکھا جائے مزےد اس بات کی کوشش کی جائے کہ اس کو ترتےل وتجوےد کے ساتھ پڑھا جائے ۔ اگر قرآن کرےم ہم حفظ نہےں کرسکتے تو کم ازکم اس کو دےکھ کر ےاد کرنے کی کوشش کرےں۔ اور عظیم ترین نعمت کی بڑی قدردانی کرتے ہوئے اللہ کے سامنے سربسجود ہوجائیں۔نابینا حفاظ کرام سے اور دیگر حفاظ کرام سے مخاطب ہوکر کہا کہ کبھی وہ کوتاہی کے شکار نہ ہوں اور نہ ہی احساسِ کمتری ان کے آس پاس ڈیرہ ڈالے ۔آخر دم تک باقی رکھنے کی کوشش کرتے رہیںجس کے بدلے میں اللہ نوازتا رہے گا مولانا موصوف نے فرمایا کہ بعض حضرات نے اعلان کیا کہ یہ منفرد المثال جلسہ ہے اور تاریخ دنیا کا پہلا تاریخی اجلاس ہے تو اس کے لیے پورا بھٹکل قابلِ تحسین اور قابل مبارکباد ہے۔ مولانا نے ہر عمر کے افراد سے قرآن کریم کو سیکھنے کی پڑھنے کی تلقی کرتے ہوئے کہا کہ عمر کے بڑے لوگوں کو عار محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔
ظاہری بصارت سے محروم ہونے کے باوجودقرآن کو سینے میں محفوظ کیا:مولانا شاہد صاحب سہارنپوری
مہمانِ خصوصی مولانا شاہد صاحب سہارنپوری نے آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ ﷺ کے بعد کہا کہ ظاہری بصارت سے محروم ہونے کے باوجود ان حفاظ کرام نے قرآن کو اپنے سینے میں محفوظ کرلیا۔دو دن سے ان کا جو مظاہرہ ہوا، آنکھوں نے جو دیکھا، اور دنیا نے جو دیکھا واقعی وہ حیرت میں ڈالنے والی اور تاریخ میں رقم ہونے والی ایک ایسی سچی داستان ہے جس کو لے کر شہر بھٹکل کو بار بار یاد کیا جاتا رہے گا اور اس کے لیے پورا بھٹکل شہر اور اس کے مقیم نوجوانان قابلِ مبارکباد ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بھٹکل سے ایک مستحسن قدم اُٹھاہے اور اس کا سلسلہ جاری رہے گا۔ جمعیة سے اُمیدکریں گے کہ اس کو وہ ساری دنیا میں ملک کے کونے میں گاﺅں گاﺅں میں پہنچادیں گے۔انہوںنے قرآن کے معجزے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کے تعلق سے آیت کے حوالے ، نزول کے وقت کفا رنے اس کے خلاف آواز لگائی تھی ، من وعن ہمارے اس ملک میں آواز اُٹھائی جاتی ہے لیکن جاءالحق وزھق الباطل کے مصداق حق آئے گا تو باطل خود بخود مٹ جائے گا۔انہوں نے یہاں اعلان کیا کہ سہارنپور میں جمعیة الحفاظ کے زیرِ اہتمام اسی طرح کا ملکی سطح کا مسابقہ کے انعقاد کا اعلان کیا جائے گاجس پر تمام حاضرین فرطِ مسرت سے جھوم اُٹھے اور اللہ کی تعریف بیان کی۔
اس کے بعد کا معاملہ عمل کا ہے :کلمہ¿ صدارت :
وقت کی تنگ دامنی کی وجہ سے جمعیة الحفاظ کے صدر اور اس دوروزہ مسابقہ جن کی زیرِ صدارت چلتا رہا مولانا نعمت اللہ ندوی مختصر سے کلمہ صدارت میںکہا کہ جتنا سننا تھا سن چکے اگلا مرحلہ عمل کا ہے لہٰذا سب عمل کی نیت کرتے ہوئے قبولیت کے لئے دعائیں کریں۔مولانا نے اپنے زیرِ صدارت منعقد ہونے والے اجلاس کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بڑی شرمندگی ہورہی ہے کہ اُن سے اورجمعیة کے اراکین و ذمہ دارن سے اتنا بڑا کام لیا اور انہوں نے یقین دلایا کہ اس طرح کے پروگرام انشاءاللہ اگلے دنوں میں بھی جاری رہیں گی۔