اسلامی دنیا خاص طور پر شام اور مشرق وسطیٰ میں بے چینی ، بغاوت اور تحریکات کے ملے جلے اثرات کو سمجھنے کےلئے روزنامہ آگ کے حیدر علی نے امریکہ سے آنے والے ڈاکٹر اسٹیون اے کُک سے بات چیت کی ۔اخبار نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کے کیا نتائج برآمد ہو رہے ہیں اس کے کہیں متضاد رویے مسلمانوں پر اثر ڈال رہے ہیں ؟تفصیل
سے ہوئی بات چیت میں ڈاکٹر کُک نے اپنے تجزیے اور امریکی پالیسیوں کا ذکر کیا ۔ پیش ہے بات چیت کے اقتباسات ۔
سوال :مشرق وسطی ٰ میں جاری مسئلے کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟
جواب : بہت ہیں ، بہت سارے مسائل ہیں ۔
سوال :شام ؟
جواب : میرے خیال میں اس موضوع پر بات چیت کےلئے ہمیں شام میں جاری خانہ جنگی پر غور کرنا ہوگا جہاں ایک لاکھ لوگوں کو بے رحمی سے مار ڈالا گیا ۔ ہمیں روس کے معاملے پر بھی غور کرنا ہوگا تب کہیں جاکر ہم اس حقیقت سے آگاہ ہوسکیں گے کہ موجودہ وقت میں شام میں کیا ہو رہا ہے ۔ میراذاتی خیال ہے کہ بد قسمتی سے اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل نہیں ہے اور نہ ہی سفارتی حل اس کے علاوہ طاقت کے زور پر بھی اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ شام میں دن بدن تشدد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس خطے میں سیاسی عدم استحکام کی صورت حال کافی دنوں سے چل رہی ہے ۔ بد قسمتی سے اس مسئلے پر بین الاقوامی برادری نے کوئی توجہ نہیں دی لیکن اب جبکہ حالات بہت بگڑ گئے ہیں ان پر قابو پانا آسان نہیں ہے ۔
سوال :شام کے مسئلے کا اندازہ ہم لوگ مخالفین کے خیالات ، حکومت کے نظریات اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کی بنیاد پر جب کرتے ہیں تو ہمارے قارئین ، مسلم لیڈر شپ امریکی بیان پر یقین نہیں کرتی اس کا خیال ہے کہ ہر مسئلہ کا تعلق امریکہ سے ہے ۔ ؟
جواب : امریکہ کا ہر مسئلے سے تعلق نہیں ہے کیا آپ ذاتی طور پر ایسا یقین نہیں کرتے ؟
سوال : شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا یہ تو حقیقت ہے ۔ کس کے ذریعہ اس کا استعمال کیا گیا ،باغیوں نے اس کا استعمال کیا ، یا حکومت نے ، ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال باغیوں کے ذریعہ کیا گیا جس کی فراہمی دہشت گرد تنظیموں کے ذریعہ کی گئی ؟
جواب : یہ ایک نظریہ ہے ، کیا آپ کے پاس اپنے نظریے کی حمایت میں کوئی ثبوت ہے ؟
سوال : یہ سچائی ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ہوا لیکن ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت شام نے اس کا استعمال نہیں کیا ؟ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ان دہشت گرد تنظیموں کے ذریعہ کیا گیا جن کی حمایت اور مالی تعاون سعودی عرب کرتا ہے ۔خاص طور پر پرنس بندر جو کہ سعودی عرب میں خفیہ ایجنسیوں کا سر براہ ہے ۔
جواب : یہ آپ کیسے جانتے ہیں ؟
سوال : مغربی میڈیا اس سلسلے میں بتا رہا ہے ؟
جواب : میں نے بہت گہرائی اور پوری صداقت سے مغربی میڈیا پر نظر رکھی ہے لیکن مجھے کوئی ایسی رپورٹ نہیں ملی کہ سعودی عرب باغیوں کو ہتھیار فراہم کر ارہا ہے حالانکہ میں نے اس سلسلے میں بہت سی رپورٹیں پڑھ رکھی ہیں کہ روس کے ذریعہ راکٹوں کا استعمال شام میں باغیوں کے خلاف کیا جا رہا ہے ۔ میرا آپ سے ایک سوال ہے کہ بشار الاسد نے ایک لاکھ مسلمانوں کو مار ڈالا اور دو ملین مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے لیکن آپ کچھ نکات پر اسد حکومت کی حمایت کر رہے ہیں ۔
سوال : نہ ہی اسد اور نہ ہی ان کے والد حافظ الاسد حکومت کی حمایت کرتے ہیں ؟
جواب : اگر چہ اسد کے والد نے بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل عام کروایا تھا ۔
سوال :میں ایک خاص موضوع پر بات کر رہا ہوں ۔
جواب : امریکہ نے شام میں کوئی مداخلت نہیں کی اگر چہ شک کا فائدہ روس اور ایران کو دیا گیا ۔
سوال : یہ بہتر ہے ۔اس خطے میں روس کا بھی بہت اہم کردار ہے ۔
جواب : جی ہاں وہ اسد حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی کر رہا ہے اور اسد نے اس کے ذریعہ ایک لاکھ لوگوں کو مروا ڈلا اور دو ملین لوگوں کو بے گھر کر دیا ۔
سوال : امریکہ شام میں جماعت النصرة ، القاعدہ کو مالی مدد دے رہا ہے ؟
جواب : ہم لوگوں نے اس تنظیم کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے ۔
سوال : کیا یہ سچائی ہے کہ امریکہ شام پر حملہ نہیں کر پایا جس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ عالمی طاقتوں کا تناسب مغرب اور مشرق یعنی روس ، چین ایران اور ہندوستان کی جانب جا رہا ہے ؟
جواب : نہیں میں ایسا نہیں سمجھتا ، میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ نے شام میں مداخلت نہیں کر کے طاقت کا مظاہر ہ کیا ہے امریکہ آج بھی عالمی طاقت ہے میں نہیں سمجھتا کہ عرب دنیا رفتہ رفتہ روس سے قریب ہو رہی ہے میں سمجھتا ہوں کہ عرب ممالک روس کو ایسے ملک کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے بہت سارے شامی ، سنی مسلمانوں اور عرب ساتھیوں کو قتل کرایا ۔
سوال : بحرین میں کیا ہو رہا ہے جہاں شیعہ مسلمانوں کا قتل ہو رہاہے ؟
جواب : جی ہاں ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ سرب لوگ ہیں لیکن امریکہ نے یہاں مداخلت کی کوشش کی تاکہ مسئلہ کا حل نکالا جاسکے ۔
سوال : بحرین اور دیگر ممالک کے سلسلے میں آپ سعودی عرب پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں ۔
جواب : امریکہ اور سعودی عرب میں بحرین کے مسئلے کو حل کرنے کے معاملے میں نااتفاقی رہی ہے ۔سعودی عرب ہمارے طریقہ کار پر رضا مندی نہیں ظاہر کرتا بحرین کے ولی عہد شہزاہ سلمان کے ساتھ اس مسئلے کو سلجھانے کےلئے کام کرنا ہوگا اسی لئے ہمیں بحرین حکومت کی مالی مدد کرنا پڑی ۔
سوال : سعودی عرب میں بادشاہت کے خلاف لوگوں میں بے چینی ہے ۔
جواب میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے ۔کوئی بھی ملک اپنی خارجہ پالیسی پر مسلسل برقرار نہیں رہ سکتا ۔ میرا مطلب کیا ہندوستان اپنی خارجہ پالیسی پر مسلسل برقرار ہے ۔
سوال : ہزاروں اقلیتی شیعہ مسلمانوںنے سعودی عرب کی مغربی ریاست میں تحریک کی تھی لیکن امریکہ نے اس سلسلے میں کیا کیا۔
جواب : امریکہ کا سعودی عرب سے بہت قریبی رشتہ ہے ، یہ ہمارے فائدے میں ہے ۔
سوال : اس کے علاوہ حقوق انسانی کے متعلق آپ کیا کہیں گے ۔
جواب : ہمارے پا س ہر ملک سے حقوق انسانی کی رپورٹ ہے لیکن ان میں کسی ایسی واردات کا ذکر نہیں ہے ۔
سوال : لیکن آپ نے اس سے اپنا مطلب نکالا ہے ؟
جواب : میرا کہنا ہے کہ کیا ہندوستان اپنی خارجہ پالیسی پر قائم ہے لیکن اس بات میں فرق ہے کہ سعودی عرب نے کیا کیا اور اسد حکومت کیا کر رہی ہے ۔ ایک لاکھ لوگوں کو قتل کیا گیا اور دو ملین لوگ بے گھر ہوئے کیا آپ نہیں سوچتے ان دونوں میں فرق ہے ۔ یقین کیجئے دونوں میں بڑا فرق ہے ۔ سعودی عرب کچھ امور پر ایسی تنقید کا حقدار ہے اور امریکہ اس کی تنقید کرتا ہے۔
سوال : کیا سعودی عرب اور قطر لابی جنگ کے لئے مالی مدد فراہم کراتی ہے اور اس کی طرفداری کر رہی ہے ۔
جواب وہ ایسا کر رہے ہیں کہ شام کا مسئلہ بہت الجھ گیا ہے یہ ملک ایک تانا شاہ سے لیکر علاقائی جنگ تک کا سامنا کر رہا ہے ۔
سوال : صورت حال بہت پیچیدہ ہوگئی ہے ؟
جواب : اس میں کوئی شک نہیں۔
سوال : شام میں جاری تشدد میں ایران کا کیا کردار ہے اس سلسلے میں آپ کیا سوچتے ہیں ؟
جواب : بہت خوب ، میں نے ہندوستان اور ایران کے سلسلے میں دلچسپ مضامین پڑھے ہیں ۔موجودہ وقت میں ایران تیل کے عوض ہندوستانی روپیہ قبول نہیں کر رہا ہے وہ صرف ادائیگی کا ۴۵ فیصد حصہ ہی روپئے کے طور پر قبول کر رہا ہے اسی طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ شام کے مسئلے میں ایران کا کیا کردار ہوسکتا ہے ایران اسد حکومت کی حمایت کر رہا ہے اور اس کو انسانی طاقت فراہم کر ارہا ہے ۔ شام کی خانہ جنگی میں ایران براہ راست مداخلت کر رہا ہے وہ اسد کے ساتھ ہے اور ایران کے انقلابی گارڈ شام میں سرگرم ہیں۔ ایران کےلئے یہ اہم ہے کہ وہ اسد حکومت کا تحفظ کرے تاکہ وہ عرب دنیا میں اپنی بالا دستی قائم رکھ سکے ۔
سوال : کیا آپ اسلامی جہادی اور شدت پسندوں کے متعلق جانتے ہیں جو شام کے غیر متشدد عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کو تباہ وبرباد کر رہے ہیں ۔
جواب : جی ہاں یہ بہت حساس معاملہ ہے ۔ شدت پسند تنظیموں کی بلولہ شہر میں موجودگی کا تو خود مجھے بھی اندازہ ہے یہ ہمارے لئے تشویش کا باعث ہے ۔ شام میں عیسائی اقلیت بہت زیادہ دباﺅ میں ہیں وہ عام طور پر اسد حکومت کی حمایت کر تے ہیں کیونکہ وہ اسلامی سخت گیروں سے خوف زدہ ہیں ۔
سوال : شام کے مسئلے میں ہندوستان کا کیا کردار ہے ۔
جواب : ہندوستان کو مشرق وسطیٰ میں سرگرم کردار انجام دینے کاا چھا موقع ہے ۔ امریکہ کو یہاں اپنے معاونین کی تلاش ہے ۔ دنیا میں ہندوستان کا ایک کامیاب بڑا بازار ہے ہندوستان پوری مضبوطی سے اپنی بات رکھنے کا حقدار ہے وہ مشرق وسطی ٰ میں مثبت تبدیلی کےلئے ایک اہم طاقت ہے ۔ شام کے مسئلے میں میں نے ہندوستان کا منفی کر دار نہیں دیکھا ۔
ڈاکٹر اسٹیون اے کُک کا مختصر تعارف
حاسب جے صباغ سینئر فیلو برائے مشرقی وسطیٰ اسٹڈیز ،کونسل امورخارجہ ، واشنگٹن ڈی سی
مہارت :مشرق وسطیٰ ، عالم عرب کی سیاست، امریکہ- مشرق وسطیٰ کی سیاست، ترکی کی سیاست، مشرقی وسطیٰ میں سول اور فوج کے تعلقات، عرب- اسرائیل تنازعہ ۔اسٹیون اے کُک کونسل برائے امورخارجہ (سی ایف آر)میں مشرق وسطی اسٹڈیز کے سینئر فیلو ہیں۔ وہ عرب اور ترکی سیاست کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور مشرق وسطیٰ کی پالیسی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر کُک نے ”مصر کی جدوجہد، ناصر سے تحریر چوک تک “نامی کتاب تحریر کی (آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ۲۰۱۱ئ)اس کتاب پر ڈاکٹر اسٹیون کو واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے گولڈ مڈل دیا گیا کیونکہ یہ کتاب ۲۰۱۲میں شائع ہونے والی مشرق وسطیٰ کے موضوع پر ایک بہترین کتاب ہے۔ اس کے علاوہ آمریت، حکومت نہیں، مصر میں فوج اور سیاسی پیش رفت، الجیریا اور ترکی جیسی کتابیں انھوں نے تحریر کی ہیں جن کی اشاعت جانس ہاپکنس یونیورسٹی پریس نے ۲۰۰۷ میںشائع کیں۔
ڈاکٹر اسٹیون نے مختلف خارجہ پالیسی پر مضامین تحریر کئے جو مختلف رسالوں، اخبارات ، وال اسٹریٹ جنرل ، ویکلی اسٹنڈرڈ سلیٹ، نیویارک ٹائمس ، واشنگٹن پوسٹ ، فائنانشیل ٹائمس ، انٹرنیشل ہیرالڈ ٹریبوین وغیرہ میں شائع ہوئے۔ ڈاکٹر اسٹیون کُک اپنی رائے ریڈیو اور ٹیلی ویژنوں پر بھی پیش کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے جلد ہی ایک بلاگ ”پوٹومیکس سے فیریٹس تک“تحریر کیا ہے ۔ سی آرایف سے وابستگی سے قبل ڈاکٹر کُک گروکنگ انسٹی ٹیوٹ نے بطور ریسرچ فیلو ۲۰۰۱سے ۲۰۰۲ تک اپنی خدمات انجام دے چکے ہیںاور مشرقی پالیسی پر بطور ریسرچ فیلو ۹۶-۱۹۹۵میں انہوں نے کام کیا ہے۔ ڈاکٹر کُک نے وسار کالج سے عالمی مطالعہ میں بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے اور جان ہاپکنس اسکول برائے عالمی اسٹڈیز سے انھوں نے عالمی تعلقات کے موضوع پر ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ انہوں نے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری پنسولوگینیا یونیورسٹی سے پالٹیکل سائنس میں حاصل کی ہے۔ وہ عربی اور ترکی زبانوں میں گفتگو کرسکتے ہیں اور فرانسیسی زبان کا علم رکھتے ہیں۔