واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر عادل الجبیر کا کہنا ہے یمن میں کارروائی کا مقصد وہاں دستور کی بحالی اور استحکام ہے۔ حوثیوں نے ایران اور حزب اللہ کی مدد سے یمن میں معاملات کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔
عرب امریکن تعلقات کونسل کے زیر اہتمام ‘یمن میں افراتفری: تجزیہ، نشاندہی اور افق’ کے عنوان سے امریکی کانگریس میں ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر الجبیر کا کہنا تھا کہ ‘ریاض کئی برسوں سے یمن میں استحکام اور حکومت کے کردار کو مضبوط بنانے کی کوششیں کرتا چلا آیا ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ہم یمن میں کارروائی نہیں کرنا چاہتے تھے مگر یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کے
مطالبے پر اس کے سوا کے ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا۔ ہمارا اول اور آخر مقصد یمن میں دستوری حکومت کا تحفظ ہے جس پر ایران اور حزب اللہ کی حمایتی تنظیمیں قبضہ کرنا چاہتی تھیں۔
سعودی سفیر کے مطابق تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی ملک میں سرگرم ملیشیا کے پاس بیلسٹک میزائل، لڑاکا طیاروں سے لیکر دیگر قسم کا بھاری اسلحہ ہو۔ اسی لئے عرب اتحادی فوج کی کارروائی جاری ہے اور وہ بھاری اسلحہ کے گودام تباہ کر رہی ہے۔ انہوں نے الزام عاید کیا کہ حوثیوں نے پناہ گزینوں کے کیمپ سمیت دودھ تیار کرنے والی فیکٹری کو نشانہ بنایا۔
یمن کے معزول صدر علی عبداللہ صالح نے حوثیوں کے ساتھ اتحاد کر کے انتہائی منفی کردار ادا کیا۔ ایران، حزب اللہ اور علی عبداللہ صالح کی وفادار فوج کی مدد کے بغیر حوثی کبھی یمنی شہروں پر قبضہ نہ کر پاتے۔
عادل الجبیر کے بقول لبنان میں حزب اللہ ملیشیا موجود ہے جس نے ملک پر قبضہ جما رکھا ہے، ہم یمن میں حوثیوں کے ذریعے ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ حوثی یمن میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ ان کا نظریہ واضح ہے اور اس کا یمن پر چنداں منفی اثر نہیں پڑے گا۔
اپنی تقریر کے اختتام پر عادل الجبیر نے کہا کہ ایران اور حزب اللہ یمن میں جاری کشمکش کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتے ہیں تاکہ دنیا کے سامنے سنی۔شیعہ لڑائی کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ ہم اس دعوی کی تردید کرتے ہیں کیونکہ یمن میں جاری لڑائی خیر اور شر کے درمیان ہے، شیعہ اور سنی کے درمیان نہیں۔