ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ ترکی میں حکام نے سوشل میڈیا کی سائٹس اور نیٹ ورکس بلاک کیے ہیں
ترکی میں سماجی رابطے کے سائٹس ٹوئٹر اور فیس بک پر عائد پابندی ہٹا دی گئی ہے۔
یہ پابندی عدالتی حکم کے مطابق سرکاری وکیل کے یرغمال بنائے جانے کی تصاویر ہٹانے کے بعد ختم کی گئی ہے۔
فیس بک اور ٹوئٹر دونوں نے یہ تصاویر اپنی سائٹس سے ہٹا دی ہیں جبکہ یو ٹیوب کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔
اس سے قبل ترکی کی ایک عدالت نے ٹوئٹر اور یوٹیوب پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ گذشتہ ہفتے ایک مسلح محاصرے کے دوران ان دونوں ویب سائٹوں پر ایک سرکاری وکیل کو یرغمال بنائے جانے کی تصویریں شیئر کی گئی تھیں۔
ترکی میں ایک شخص کو یرغمال بنائے جانے کی تصویریں سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر شیئر کی گئی تھیں۔
اطلاعات کے مطابق انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دو مسلح افراد نےگذشتہ ہفتے استنبول کی مرکزی عدالت میں ایک سرکاری وکیل کو یرغمال بنایا تھا۔
صورتِ حال پر قابو پانے اور وکیل کو بازیاب کرانے کے لیے جب پولیس نے دھاوا بولا تو فائرنگ میں دونوں مسلح افراد اور وکیل ہلاک ہوگئے۔
یوٹیوب اور ٹوئٹر پر عائد کرنے سے قبل ترکی میں حکام نے اخبارات کو اس واقعے کی تصاویر کی اشاعت سے روک دیا تھا۔
حکومت نے اخبارات پر الزام لگایا تھا کہ وہ ’ڈی ایچ کے پی سی‘ گروپ کے لیے ’دہشت گردوں کا پروپیگنڈا‘ پھیلا رہے ہیں۔
’ڈی ایچ کے پی سی‘ گروپ عدالت میں ہونے والے واقعے کا ذمہ دار بتایا جاتا ہے۔ ترکی، یورپی یونین اور امریکہ اس گروپ کو دہشت گرد گروپ سمجھتے ہیں۔
عدالت میں پیش آنے والے واقعے کے مرکزی کردار سرکاری وکیل محمت سلیم کیراز کو بظاہر اس لیے یرغمال بنایا گیا کہ وہ سنہ 2013 میں حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران ایک لڑکے کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کے سربراہی کر رہے تھے ۔
ترکی میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں کئی ویب سائٹس تک رسائی میں مشکل پیش آ رہی ہے
ترکی کے اخبار حریت کے مطابق حملہ آوروں کی وہ تصاویر جن میں وہ سرکاری وکیل کے سر پر بندوق تانے ہوئے ہیں، سوشل میڈیا پر بھی بہت زیادہ تعداد میں شیئر کی گئی ہیں۔
اس وجہ سے ترک حکام نے فوری کارروائی کرتے ہوئے عدالت سے حکم حاصل کیا کہ یوٹیوب اور ٹوئٹر پر پابندی لگا دی جائے۔ عدالت کے حکم کے نتیجے میں 168 ویب سائٹس جنھوں نے یہ تصاویر شیئر کی تھیں، سب کو بلاک کر دیا گیا۔
یوٹیوب نے اپنی ویب سائٹ پر عدالت کے حکم کا متن شائع کیا ہے اور کہا ہے کہ ترکی کے ٹیلی کام کے حکام نے ایک ’انتظامی اقدام‘ کیا ہے۔
خیال ہے کہ فیس بک پر بھی ایسی ہی پابندیاں تھیں لیکن جب وہاں سے متنازع تصویروں کو ہٹا دیا گیا تو اس پر عائد پابندی بھی اٹھا لی گئی تھی۔
ترکی میں بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اطلاع کی ہے کہ انھیں کئی ویب سائٹس تک رسائی میں مشکل پیش آ رہی ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ ترکی میں حکام نے سوشل میڈیا کی سائٹس اور نیٹ ورکس بلاک کیے ہیں۔ مارچ 2014 میں مقامی انتخابات کے موقع پر ایک ایسی ریکارڈنگ سامنے آنے کے بعد جس میں سینیئر اہلکاروں پر مبینہ طور پر بدعنوانی کے الزام تھے، ویب سائٹس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
ٹوئٹر کی طرف سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق جولائی اور دسمبر 2014 کے دوران مواد کو ہٹانے کی جتنی درخواستیں ترکی کی جانب سے کی گئی تھیں، اتنی کسی اور ملک کی طرف سے نہیں ہوئیں۔