کراچی: عالمی یومِ صحت کے موقع پر ملک میں ذہنی صحت کی حالت پر منعقدہ ایک سیمینار میں ماہرین صحت کی دیکھ بھال کے اس اہم ترین شعبے پر توجہ کی مسلسل کمی پر تشویش کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صحت کے بجٹ کا محض دو فیصد حصہ ذہنی
صحت کے مسائل کے لیے مختص کیا جارہا ہے، جو پہلے سے غیرتسلی بخش ہے۔
اس سیمینار کا اہتمام پاکستان ایسوسی ایشن برائے ذہنی صحت نے انسانی حقوق کمیشن پاکستان اور ذہنی صحت کے فورم کے تعاون سے مقامی ہوٹل میں کیا تھا۔
اگرچہ اس سال کا موضوع خوراک اور تحفظ تھا، تاہم منتظمین نے تنظیموں کی شرکت کے ساتھ سندھ ذہنی صحت ایکٹ 2013ء کے حوالے سے منانے کا فیصلہ کیا۔
اس کے قوانین کا حتمی گزٹ نوٹیفکیشن اور فارمز ایک مہینے پہلے جاری کیے گئے تھے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ڈپریشن اور بے چینی عوامی صحت کے مسائل میں تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے، جس کے معذوری، امراض، موت کی شرح اور صحت پر بھاری اخراجات کی صورت میں معاشرے پر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
سیمینار کے شرکاء کو آگاہ کیا گیا کہ پانچ لاکھ پاکستانیوں کے لیے محض ایک سائیکاٹرسٹ ہے، بارہ لاکھ پچاس ہزار پاکستانیوں کے لیے سائیکاٹرسٹک نرس ہے، جبکہ چالیس ہزار سے زیادہ آبادی کے لیے محض ایک بیڈ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بجٹ کا 2.4 فیصد حصہ صحت کے لیے مختص کیا جارہا ہے، جس میں سے محض دو فیصد ذہنی صحت کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زُہرہ یوسف نے کہا کہ پاکستان میں صحت سے متعلق مسائل کے لیے مختص کی جانے والی رقم میں افسوسناک حد تک کمی آئی ہے، جبکہ ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے یہ انتہائی کم ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں ذہنی صحت کے مسائل انسانی حقوق کا اہم مسئلہ بن گئے ہیں، اس لیے معاشرہ دہشت گردی اور تصادم سے دوچار ہے۔
زُہرہ یوسف نے کہا کہ سندھ ذہنی صحت کے ایکٹ کی منظوری کے بعد یہ وقت کی ضرورت تھی کہ معاشرے کے تمام اہم طبقات اس قانون کے مؤثر نفاذ کے لیے ایک مہم شروع کرتے۔
انہوں نے ماہرین نفسیات پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں تصادم کی صورتحال پر اپنی توجہ مرکوز کریں، جہاں پورے معاشرہ تشدد، بم دھماکوں اور عسکریت پسندی سے مجروح ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن نے ملک میں سائیکو ٹراما سینٹروں اور ملک میں سیکیورٹی کی نازک صورتحال کی وجہ سے بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک متعلقہ ادارے کے قیام پر حکومت کی تعریف کی۔
انہوں نے معروف ماہرِ نفسیات پروفیسر ایس ہارون احمد کے ساتھ ذہنی مریضوں اور جیلوں میں چریا وارڈ میں رکھے گئے لوگوں کے کے حقوق پر بھی روشنی ڈالی۔
زُہرہ یوسف نے کہا کہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان ان لوگوں کے لیے آواز اُٹھائی ہے، جو خود اپنے حقوق کے لیے جدوجہد نہیں کرسکتے۔
ریٹائرڈ جسٹس غوث محمد نے سندھ کے ذہنی صحت کے ایکٹ کے لیے قوانین کی تیاری کے حوالے سے اپنی کوششوں کے بارے میں بتایا۔
پروفیسر اقبال آفریدی نے ڈاکٹروں، وکیلوں اور صارفین کو نافذ ہونے والے نئے قانون کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے ضمن میں تعلیمی اداروں کے کردار پر تبادلۂ خیال کیا۔ انہوں نے سندھ کے ذہنی صحت ایکٹ 2013ء کی اشاعت کے لیے ذمہ داری لینے کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈاکٹر سعدیہ قریشی جو ایک کمیونٹی ذہنی صحت پروگرام چلاتی ہیں، ایک پریزینٹیشن دی۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ذہنی مریضوں کے حقوق کے فروغ کو اپنے پروجیکٹ میں شامل کریں گی۔