ایران کے رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ جونہی جوہری پروگرام کے تنازعے پر حتمی معاہدہ طے پاجاتا ہے تو ان کے ملک پر عاید تمام بین الاقوامی پابندیاں ختم کردی جائیں۔البتہ ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے امریکا کے شیطانی ارادے ہیں۔
ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن سے نشر کی گئی ایک تقریر میں انھوں نے کہا ہے کہ ”انھوں نے ایران اور چھ
ے بڑی طاقتوں کے درمیان گذشتہ ہفتے طے پائے عبوری سمجھوتے کی نہ تو حمایت کی ہے اور نہ ہی اسے مسترد کیا ہے۔اس کی تفصیل ہی فیصلہ کن ہوگی”۔
سوئٹزر لینڈ کے شہر لوزین میں ایران اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک اور جرمنی کے درمیان طے پائے فریم ورک سمجھوتے پر ان کا یہ پہلا ردعمل ہے۔ایرانی قیادت نے اس سمجھوتے کو اپنی فتح قرار دیا ہے۔
علی خامنہ ای نے کہا کہ”وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایک حقائق نامے (فیکٹ شیٹ) کی اشاعت میں ظاہر کی گئی شرائط سے واضح ہورہا ہے کہ امریکا نے شیطانی ارداوں سے سمجھوتے سے متعلق ایرانی نقطہ نظر کی مخالفت کی تھی”
انھوں نے کہا کہ ”میں نے نہ تو اس کی حمایت کی ہے اور نہ مخالفت کی ہے۔تفصیل میں سب کچھ موجود ہے۔یہ شاید دھوکا دہی پر مبنی ہے اور دوسرا فریق ہمیں تفصیل میں محدود کرنا چاہتا ہے”۔
ان کا کہنا تھا کہ ”وائٹ ہاؤس نے مذاکرات ختم ہونے کے چند گھنٹے کے بعد ہی ایک بیان جاری کردیا تھا۔اس کو انھوں نے فیکٹ شیٹ کا نام دیا تھا اور یہ بہت سے ایشوز کے حوالے سے غلط تھا”۔
لوزین میں 2 اپریل کو آٹھ روز تک مذاکرات کے بعد طے پائے عبوری سمجھوتے میں مغرب کے ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایران جوہری بم تیار نہیں کرے گا اور اس کے بدلے میں اس پر عاید اقتصادی پابندیاں ختم کردی جائیں گی۔
علی خامنہ ای نے اپنی تقریر میں ایران کے اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے ؛کہ وہ جوہری بم تیار نہیں کرنا چاہتا ہے۔تاہم انھوں نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ہمیشہ کی طرح اپنے شکوک کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ”میں امریکا کے ساتھ مذاکرات سے متعلق کبھی بھی پُرامید نہیں رہا ہوں لیکن اس کے باوجود میں نے بات چیت سے اتفاق کیا اور ان کی حمایت کی اور اب بھی مذاکرات کاروں کا حامی ہوں”۔
ان کا کہنا تھا کہ ”وہ ایک ایسی ڈیل کے حامی ہیں جس سے ایران کے ”مفادات اور وقار” کا تحفظ ہو اور اس ضمن میں اگر 30 جون کی ڈیڈلائن میں توسیع کردی جاتی ہے تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ہے”۔