سعودی عرب نے پاکستان سے بّری، بحری اور فضائی مدد مانگی تھی تاہم پاکستان کی پارلیمان نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے اس کے فوجی اتحاد کا حصہ نہ بننے کے فیصلے کے باوجود وہ حوثی
باغیوں کے خلاف یمن میں جاری مہم کا دائرہ کار محدود نہیں کرے گا۔
سعودی فوج کا کہنا ہے کہ یمن میں باغیوں پر بمباری کی مہم کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اگر پاکستانی فوج اس اتحاد میں شامل بھی ہوتی تو اس کا کردار مددگار کا ہی ہوتا۔
تاہم ریاض میں موجود بی بی سی کی نامہ نگار کم غطاس کے مطابق سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کو بمباری کے باوجود حوثی باغیوں کی پیش قدمی روکنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور پاکستان کا غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ سعودی عرب کے لیے ایک دھچکا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی نے جمعے کو یہ خبر دی تھی کہ اتحادی فوج کے ترجمان برگیڈئیر جنرل محمد اسری نے پریس کانفرنس میں یمن میں غیر جانبدارانہ رہنے کے پاکستانی پارلیمان کے فیصلے کے حوالے سے کہا تھا کہ ابھی پاکستان نے سرکاری طور پر اپنے فیصلے کا اعلان نہیں کیا۔
انھوں نے پاکستانی فوج کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج اپنی مستعدی اور ہنرمندی کی وجہ سے معروف ہے اور اتحاد میں ان کی شمولیت ایک کریڈلا ہوگا۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس سے اتحاد میں شامل دیگر ممالک کی صلاحیتوں کا درجہ کم کرنا مقصود نہیں
برگیڈئیر جنرل محمد اسری کا کہنا تھا کہ صدہ، عمران اور دعن کے قرب و جوار میں حوثی باغیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انھوں نےتصدیق کی تھی کہ سعودی عرب کی جانب سے اپنے علاقوں کی سرحدی نگرانی جاری ہے اورحوثی باغیوں کے خلاف زمینی آپریشن بھی کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ریڈکراس اور دیگر امدادی اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ یمن کے متاثرہ علاقوں میں عوام اور ہسپتالوں تک انھیں رسائی دی جا سکے۔
برگیڈئیر جنرل محمد اسری نے یہ بھی کہا کہ اس آپریشن کا ہدف انفراسٹرکچر کی تباہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ حوثی ملیشیا سکولوں، کھیل کے سٹیڈیمز اور سول اداروں میں اسلحے کی ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی تصدیق کی کہ صنعا میں منونسپل کمپلکس کو ان کی جانب سے اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ حوثی باعی وہاں اپنے ہتھیار ذخیرہ کر رہے تھے۔
یمن میں سعودی عرب کی مداخلت پر پاکستانی پارلیمان کی جانب سے جمعے کے روز ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان اس جنگ میں اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے گا اور کوشش کرے گا کہ سلامتی کونسل اور او آئی سی کے ذریعے جنگ بندی کی جا سکے۔
یاد رہے کہ سعودی حکومت نے 25 مارچ کو یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ ملکر فضائی بمباری کا آغاز کیا تھا اور اس سلسلے میں اس نے پاکستان سے بّری، بحری اور فضائی تعاون مانگ رکھا ہے۔