لکھنؤ(نامہ نگار)قدیم لکھنؤ کے زیادہ تر علاقے اپنی بد حالی پر آنسو بہا رہے ہیں۔ قدیم لکھنؤ کی تزئین کاری کے لئے جہاں گزشتہ چھ ماہ سے تیزی سے کام چل رہا ہے اور پرانے لکھنؤ کو خوبصورت بنانے کے لئے انتظامی عملہ مصروف ہے وہیں اسی پرانے لکھنؤ کے کئی علا
قے آوارہ مویشی ، غلاظت اور کھلے منہول سے پٹے پڑے ہیں۔حسین آباد کے علاقے کے کئی جگہوں پر آوار مویشی ہر وقت گھومتے رہتے ہیں۔ کھلے مینہول کسی بڑے حادثہ کو دعوت دیا کرتے ہیں ۔ گندگی میں تو لوگوں کی زندگی دشوار کر دی ہے۔ علاقہ کے لوگ مقامی کار پوریٹر رانی کنوجیا کے نمائندے سے کئی مرتبہ شکایت کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ کوئی سنوائی نہیں کر رہے ہیں۔ دولت گنج وارڈ کا بیل والا ٹیلہ ، حاطہ مرزا علی خان ، زہراء کالون، فاطمہ کالونی وغیرہ علاقے گندگی اور آوارہ مویشیوں سے پریشا ن ہیں۔ بیل والا ٹیلہ پر دو ہفتہ قبل میونسپل کارپوریشن کے ملازمین مینہول کی صفائی کرنے آئے تھے۔ انہوں نے مین ہول کی صفائی کرتے وقت جوسلٹ نکالی اس کو وہی چھوڑ دیا۔ مینہول کے درمیان راستے میں ہونے کے سبب لوگوں کو آمد و رفت میں خاصی پریشانی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی اسی علاقے میں ایک اسکول بھی ہے جہاں ہزاروں طلباء یومیہ پڑھنے جاتے ہیں ۔ مین ہول کی گندگی کے درمیان پڑے رہنے سے ان طلباء کو کافی دقت ہوتی ہے۔ ان سب کے باوجو د کارپوریٹر اور میونسپل کارپوریٹر ملازمین یہاں صفائی کا بند وبست نہیں کر پار رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہیکہ کارپوریٹر کا عوامی نمائندے کبھی بھی علاقے میں آتے تک نہیں ہیں۔ الیکشن کے وقت ہی کارپوریٹر امید وار اور ان کے عوامی نمائندے بنے ان کے شوہر علاقہ میں ووٹ مانگنے کیلئے چکر لگایا کرتے تھے۔ الیکشن جیتنے کے بعد ان کی شکل تک نہیں دکھی ہے۔ دولت گنج وارڈ کی کارپوریٹر رانی کنوجیا کو لاپروائی کا خمیازہ انہی لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ جنہوں نے اپنا کارپوریٹر منتخب کیا ہے۔ لیکن کارپوریٹر کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں کا ووٹ ان کو نہیں ملا تھا۔ اس لیئے ان کے علاقے کی یہ حالت ہے وہیں آوارہ مویشی اور گندگی کے ساتھ بجبجاتی نالیاں بھی علاقے کے لوگوں کیلئے مصیبت کا سبب بنی ہوئی ہے۔ گرمی کے دن شروع ہو چکے ہے ایسے میں اگرعلاقے کا یہی حال رہا تو متعدی بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔