تہران ۔ ؛ایرانی حکام نے گذشتہ چند روز کے دوران چار اہوازی عربوں کو ریاست مخالف سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں پھانسی چڑھا دیا ہے۔ انھوں نے ان چاروں کے خاندانوں کو سُولی لٹکانے کی اطلاع کر دی ہے لیکن ابھی تک ان کی میتیں ان کے حوالے نہیں کی ہیں۔
ایران کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے جمعرات کو ایک بیان میں پھانسی پانے والے ان چاروں اہوازیوں کے نام غازی العباسی ، عبدالرضا عامر خانفرا، عبدالامیر مجدمی اور جاسم مقدم بتائے ہیں۔ ان کا تعلق الفلاحیہ قصبے سے تھا۔
ایرانی عدلیہ نے ان کے خلاف ”خدا سے دشمنی” اور فلاحیہ میں لبرل بٹالین کے قیام کے ذریعے ملکی سلامتی کو خطرات سے دوچار کرنے کے الزام میں فرد جرم عاید کی تھی۔
ان چاروں کارکنان نے سزائے موت کا حکم سنائے جانے کے بعد جیل سے ایک خط لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ انھیں تین سال تک دوران حراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کے خلاف صرف ایک گھںٹے تک مقدمے کی سماعت ہوئی اور ان کا مؤقف سنے بغیر ہی انھیں پھانسی کا حکم سنا دیا گیا۔ عدالت نے انھیں وکیل کرنے کی بھی اجازت نہیں دی تھی۔
انھوں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ”ان سے بٹالین کے قیام کے الزام میں کوئی تفتیش نہیں کی گئی تھی لیکن عدالت نے ان پر اس الزام میں فرد جرم عاید کی تھی جس پر وہ ہکّا بکا رہ گئے تھے”۔
واضح رہے کہ اہوازی عربوں کی اکثریت ملک کی دوسری اکثریتی آبادی کی طرح شیعہ مذہب سے تعلق رکھتی ہے لیکن انھیں نسلی طور پر ایک اقلیت مانا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر لوگ تیل کی دولت سے مالامال جنوب مغربی صوبے خوزستان میں آباد ہیں۔ وہ اکثر ایرانی حکام کے خود سے امتیازی سلوک اور دیوار سے لگانے کی شکایات کرتے رہتے ہیں۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین آشٹن نے جنوری میں ایران پر زور دیا تھا کہ وہ اہوازی عرب کارکنان کو پھانسی دینے کا سلسلہ موقوف کردے۔ تاہم ایرانی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی چلی آرہی ہے کہ وہ اہوازی عربوں کو نسلی طور پر ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
گذشتہ ہفتے ایرانی ٹی وی نے پھانسی کے منتظر تین اور اہوازی کارکنان کے اعترافی بیانات نشر کیے تھے۔ ان کے نام علی جیبشاط، یاسین الموساوی اور سلمان چیان بتائے گئے تھے۔