عالم نقوی ::
ایران کے حکمراں سمجھتے ہیں کہ ا نہوں نے اپنے ایٹمی پروگرام پر پندرہ سے بیس سال کا قدغن قبول کر کے معاشی پابندیوں میں ممکنہ نرمی کے وعدوں کی صورت میں واقعی کوئی کامیابی حاصل کر لی ہے تو ’ امور مملکت خویش خسرواں دانند‘ کے مصداق ہم یہی کہ سکتے ہیں کہ پھر ٹھیک ہی ہوگا ،کیونکہ ہماری نگاہ تو ان تمام مصالح تک پہنچنے سے قاصر ہے جو ایرانی حکمرانوں اور ان کے تمام مذاکرات کاروں کے پیش نظر ررہے ہوں گے۔ تاہم مشرق وسطیٰ کے حالات اور موجودہ کشیدہ اور جنگ زدہ صورت حال پر اس معاہدے کے مثبت اور دور رس اثرات مرتب ہوںگے یہ بات ، جتنی آسانی سے کہی جا رہی ہے ، ہمارے نزدیک وہ اتنی آسان ہے نہیں ۔
عبوری معا ہدے کے مطابق جسے حتمی شکل جون کے اواخر میں دی جائے گی ، ایران یورینیم افزودہ کرنے والے ’سنٹری فیو جز ‘ کی تعداد موجودہ انیس (۹۱ ) ہزار سے گھٹا کے محض ۶ ہزار ایک سو چار کر دے گا ۔ اور اسلحہ گریڈ کے افزودہ یورینیم کے اپنے ذخیرے میں بھی بھاری کٹوتی کرے گا ۔ وہ اپنے زیر زمین ’ فردو ‘ FORDOW ایٹمی پلانٹ میں اگلے پندرہ سال تک یورینیم افزودہ نہیں کرے گا ۔ اور بین ا لا قوامی اٰٹمی توانائی ایجنسی IAEA کے معائنہ کار وں کو بے روک ٹوک ایران کی تمام ایٹمی تنصیبات ، نیو کلیر FASCILITIES اور اس سے وابستہ سبھی پروگراموں کی ہمہ وقت نگرانی کا مکمل اختیار ہو گا ۔ کچھ پابندیاں دس سال تک اور بقیہ پورے پندرہ سال تک جاری رہیں گی ۔
اس عبوری معاہدے سے ایران کو حاصل ہونے والی کامیابیوں میں ، بشرطیکہ انہیں ” کامیابی“ کہنا مناسب ہو ، مغربی طاقتوں نے ، جو خود کو پوری دنیا کا خدائی فوجدار اور ٹھیکے دار سمجھتی ہیں ، ایران کے محدود ایٹمی پروگرام کو اپنی کامل نگرانی میں ’جاری رکھنے ‘ کی اجازت ’مرحمت فرمادی ہے ‘ اور اس ’ نوازش خسروانہ ‘کے تحت وعدہ کیا ہے کہ ۷۳ سال سے ایران کے خلاف عائد معاشی پابندیوں کو دھیرے دھیرے اور بتدریج ، کم کیا جا تا رہا رہے گا !
’خسروِ عالَم ‘ بارک اوباما نے فر مایا ہے کہ ” ہم نے یہ معاہدہ اعتماد کی بنیادوں پر نہیں کامل نگرانی صد فیصد شفافیت کی بنیادوں پر کیا ہے وہ بھی اس شرط پر کہ جب بھی نگرانی اور شفافیت میں کوئی کمی ہم نے محسوس کی تو ہمیں بطور سزا دوبارہ پابندیاں نافذ کر نے کا اختیار ہوگا ! ‘
ہم اس پر مزید کوئی تبصرہ کر نے سے پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کر دینا چاہتے ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ ایران ایٹم بم نہیں بنا رہا ہے ۔ کیونکہ رہبر معظم خامنہ ای یہ کہہ چکے ہیں کہ اسلام اندھے اور اجتماعی ہلاکت کے ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اور وہ کوئی ما بعد جدید فلسفی یا کوئی دنیوی سیاسی لیڈر نہیں ہیں کہ وہ کہیں کچھ اور ان کا مطلب کچھ اور ہو ۔ وہ جو کہتے ہیں ان کا مطلب بھی وہی ہوتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ایران ایٹمی تحدید اسلحہ معاہدے پر دستخط کر چکا ہے جس کے تحت معاہدے کے سبھی دستخط کنندگان کو اپنی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ایٹمی طاقت کے پُر امن استعمال کی اجازت ہے ۔ اسرائیل ہندستان اور پاکستان ایٹم اور ہائڈروجن بموں سمیت نیو کلیر ہتھیاروں کے ’ بھنڈار ‘ رکھنے والی ایسی طاقتیں ہیں جنہوں نے آج تک ایٹمی تحدید اسلحہ معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں ۔ لیکن ان تینوں ملکوں پر کوئی پابندی نہیں ۔ تیسری بات یہ کہ اگر ہندستان اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے دنیا کو کوئی خطرہ نہیں ہے تو ایران کے ایٹمی پروگرام سے بھلا دنیا کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے ؟ ان خدائی فوجداروں کو پر یشانی کیا ہے ؟ایران کے دامن پر تو کسی ہیرو شما ، نا گا سا کی دہشت گردی کاداغ بھی نہیں ۔ایران کے کسی ایٹمی مرکز میں تھری مائلس آئی لینڈ (امریکہ )، چرنوبل( کیف ۔یوکرین) اور فو کو شیما (جاپان ) جیسے کسی ایٹمی صنعتی حادثے کا ریکارڈ بھی نہیں ۔ اسرائیل کی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے کہ ہر ظالم اور دہشت گرد خوف کی نفسیات میں جیتا ہے لیکن یہ مسلم ممالک کو کیا ہوا ہے ؟ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت میں دجال اکبر اسرائیل کے ہم نوا کیوں ہیں ؟ جبکہ وہ چاہتے تو ایران کی مدد سے وہ سب اپنے اپنے ملکوں میں میں ’پُر اَمن ایٹمی توانائی پروگرام ‘ شروع کر سکتے تھے !اگر سبھی ۷۵ مسلم ممالک ایران اور پاکستان کے عملی اشتراک و تعاون سے ایک متحدہ و مشترکہ ’ایٹمی پروگرام شروع کر دیتے توکیا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مصداق نہ بن جاتے ؟ اور پھر ، بھلا کس کی مجال ہوتی کہ عراق ، لیبیا اور افغانستان و ایران کے ساتھ وہ سلوک ہوتا جو تاریخ کا ناسور ہے !
اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ اگر با لفرض ایران ایٹم بم بنا بھی رہا ہوتا تو وہ اسرائیل کے لیے کبھی خطرہ نہ ہوتا کیونکہ فضا سے گرائے جانے والے کسی بم میں ابھی تک وہ آنکھیں نہیں لگائی جا سکی ہیں جو دوست اور دشمن میں تمیز کر سکے ! اسرائیل ہے ہی کتنا بڑا ؟ اگر تل ابیب پر کوئی ایٹم بم پھینکا جائے توکون اس کی ضمانت لے سکتا ہے کہ ا س سے ہونے والی تباہی سے غزہ اور یروشلم محفوظ رہیں گے ؟ اسرائیل پر ایٹم بم گرانے کا مطلب اسرائیل سمیت اسکے سبھی مسلم پڑوسیوں کو بھی نقصان پہنچانا ہے ۔ جس طرح کراچی پر گرایا گیا بم ممبئی تک اور لاہور پر گرایا ہوا بم امرتسر سے دہلی تک کو ہیروشما اور ناگا ساکی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے !
اس سے قطع نظر ، اب بھی وقت ہے ۔ ایران سعودی عرب ترکی انڈونیشیا سمیت سبھی مسلم ممالک متحد ہوکر بنیان مرصوص بن جائےں تو ابھی پوری دنیا میں پائےدار امن قائم ہو سکتا ہے
۔ ورنہ دنیا کے تمام مسلمسنوں کو ایک عظیم تباہی کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ ہمیں الگ الگ کر کے مار لینے کے منصوبے پر عمل درآمد روز بروز شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے ! فھل من مدکر ؟