عالم نقوی::
۲ مارچ کے ٹائمز آف انڈیا لکھنو¿ اڈیشن میں صفحہ اول کی اینکر اسٹوری کی سرخی تھی ؛ ”’ اردو اشعار دماغ کے لیے اکسیر ہیں “Urdu Couplets are Elixir for Brain اصطلاحی معنی میں اکسیر اور آب حیات کم و بیش ہم معنی ہیں ؛شفائے کامل یا بقائے دوام بخشنے والی کوئی شے ۔شیلوی شاردا نے لکھنو¿ کے مرکز برائے بایو میڈیکل ریسرچرس CBMRکی ایک حالیہ تحقیق کے حوالے سے جو ایک بین ا لا قوامی طبی جریدے ”نیورو سائنس لیٹرس Neuroscience Letters کے تازہ شمارے میں شایع ہوئی ہے ، لکھا ہے کہ اردو شاعری کی قرائت نہ صرف روح کے لیے فرحت بخش ہے بلکہ پڑھنے والے کے دماغ کے لیے اکسیر بھی ہے ۔محققین کے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ اردو زبان کی قرائت دماغ کے پیشانی والے حصے کو متحرک کرتی ہے ۔ فیصلہ کرنے ، اچھے اور برے میں تمیز کرنے ، جذ بات اور اعصاب پر قابو پانے اور دماغ تک پہنچنے والی اطلا عات کا تجزیہ کرنے کا پیچیدہ عمل اسی پیشانی والے حصے سے تعلق رکھتا ہے ۔ محققین کا کہنا ہے کہ اردو پڑھنے والوں میں یاد داشت میں کمی یا خاتمے کا عمل ، اردو نہ جاننے والوں کے مقابلے میں نسبتاً تاخیر سے ہوتا ہے ۔ جن بچوں میں پیدائشی طور پر سیکھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اردو اس میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے ۔
سی بی ایم آر کے ایک محقق ڈاکٹر اتم کمار نے شیلوی شاردا کو بتایا کہ تحقیق میں ”برین میپنگ “ کی اس جدید ترین تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے جو دماغ کے تشکیلی اور تفاعلی امور کے تجزیے میں کام آتی ہے ۔ ڈاکٹرکمار نے بتایا کہ جب ہم کوئی زبان سیکھتے ہیں تو دماغ میں کچھ نقوش بن جاتے ہیں جن کی شناخت اور تفہیم کے جدید ترین طریقوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہندی اور جرمن کے مقابلے میں انگریزی اور فرانسیسی دماغ کو زیادہ متحرک کرتی ہیں لیکن اردو سیکھنے میں دماغ کے اعلیٰ ترین حصوں کا تعامل اور INVOLVEMENTشرکت سب سے زیادہ ہوتی ہے جو دماغ کو صحت مند رکھنے کے لیے ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ اردو الفاظ کی بصری پیچیدگی VISUAL COMPLEXITY اور اس کا دائےں سے بائےں جانب لکھا جانا اس زبان کی اضافی خصوصیات ہیں ۔
جہاں اس خبر کا ٹائمز آف انڈیا میں شایع ہونا ایک خوشگوارط حیرت کا باعث ہے وہیں یہ بات افسوسناک بھی ہے کہ یہ خبر ٹائمز کے دیگر سبھی ایڈیشنوں کا حصہ نہیںبنی ۔ اور دوسرے دن ، ۳ مارچ کے د وسری زبانوں کے بیشتر اخبارات نے بھی اسے اپنے یہاں شایع نہیں کیا ۔ہمارے نزدیک اس خبر کی اہمیت یہ ہے کہ صرف اردو اور فارسی نہیں یہ تحقیق ، فی ا لواقع ، عربی مبین یعنی قرآنی زبان کی بلندی کا ثبوت ہے ۔ ویسے تو اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کو عربی مبین میں کیوں نازل کیا ، یہ تو صرف اللہ جانتا ہے یا وہ جسے علیم و خبیر اللہ نے اپنے علم میں سے کچھ عطا فرما دیا ہو ، لیکن اس تحقیق نے کم از کم اتنا تو ثابت ہی کر دیا ہے کہ قرآن جیسی قیامت تک رہنے والی کتاب ہدایت کے لیے عربی مبین کا رسم ا لخط ہی بہترین تھا ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ بات انسانوں اور زبانوں کے خالق سے بہتر اور کون جان سکتا تھا !
یہ تحقیق ان اردو والوں کے لیے کسی تازیانہءعبرت سے کم نہیں جنہوں غلامی نفسیات کا شکار ہو کر از خود ایک اعلی زبان کو چھوڑ کر کسی کم تر زبان کا قلادہ از خود اپنی گردنوں میں ڈال لیا ہے اور انہیں اپنے اس نقصان عظیم کا احساس بھی نہیں ہے ۔ اردو چھوڑنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے عربی سے بھی ناطہ توڑ لیا ہے ۔ آئیے آج ہم یہ عہد کریں کہ کل تک جو ہوا سو ہوا ، ہم اپنا آنے والا کل برباد نہیں ہونے دیں گے ۔ اور ہم اپنے بچوں کو اردو اور عربی ضرور پڑھائےں گے ۔