واشنگٹن: بنیاد پرستی کو روکنے کے لیے اوباما انتظامیہ کی جانب سے شروع کیے گئے ایک پائلٹ پروگرام سے امریکی مسلمانوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں۔
گوکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کئی سالوں سے اس طرح کی چیزوں سے کہیں بڑھ کر کررہے ہیں۔ لیکن اب وفاقی حکام نے ان کے کاموں پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے، کچھ مسلمان اور دوسرے افراد خوفزدہ ہیں کہ بنیادی پرستی کو روکنے کے پس پردہ کچھ اور مقاصد ہیں اور انہیں پریشانی ہے کہ اس سے شہری و مذہبی آزادی مجروح ہوسکتی ہے۔
مسلم رہنماؤں کی کوششیں تقسیم ہیں، ایک طرف ایسے لوگ ہیں، جو دلیل دیتے ہیں کہ ان کی کمیونٹی میں انتہاءپسندی کا لازماً مقابلہ کیا جائے اور یہ پروگرام اس کے حصول کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔
دوسری طرف ایسے لوگ ہیں، جو اس پروگرام سے خوفزدہ ہیں، جس کا لاس اینجلس، منی پولس اور بوسٹن میں تجربہ کرنے کے بعد پورے امریکا میں لاگو کردیا جائے گا، ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کی برادری کو نشانہ بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ڈھکا چھپا راستہ ہے۔
اس حوالے سے شکوک و شبہات کے شکار افراد نیویارک پولیس کے محکمہ مسلمانوں کی نگرانی، یاد دلاتے ہیں، جو 2011ء میں ایک تحقیقات کے دوران بے نقاب ہوا تھا، اور ایف بی آئی کے ایک مخبر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں 2000 کی دہائی کے وسط میں سکھایا گیا تھا کہ جنوبی کیلیفورنیا کی مذہبی برادری کی خوشنودی کس طرح حاصل کی جائے۔ یہ کام خفیہ طور پر بات چیت کے ریکارڈز اور رابطوں کی معلومات اکھٹا کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
امریکی حکومت نے ’’پرتشدد انتہاپسندی کے انسداد کے پروگرام‘‘ کا گزشتہ موسمِ خزاں میں اعلان کیا، اس کا بل بنیاد پرستی کا جڑ سے خاتمہ کے ذریعے دہشت گردی اور عسکریت پسندوں کی بھرتی سے نمٹنے کے اقدام کے طور پر پیش کیا گیا۔
صدر باراک اوباما نے بعد میں کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خودساختہ اسلامک اسٹیٹ جیسے گروپس کی پھیلائی ہوئی غلط فہمی کا مقابلہ کریں۔ جیسا کہ سینئر انتظامی حکام کا اصرار ہے کہ کسی خاص خطرےپر اپنی توجہ مرکوز نہیں کررہے ہیں۔
امریکی انٹیلی جنس اداروں کے مطابق تقریباً بیس ہزار جنگجوؤں نے اسلامک اسٹیٹ گروپ اور دوسرے انتہاپسندوں کے ساتھ عراق اور شام میں ان کی مہمات میں شمولیت اختیار کرلی ہے، ان میں مغربی اقوام کے کم از کم تین ہزار چارسو افراد بھی شامل ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ان میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو امریکی ہیں، اگرچہ وہ جنگی علاقے تک پہنچے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
امریکی حکام طویل عرصے سے ٹموتھی میک ویگ کی طرز کے امریکا میں پروان چڑھنے والے انتہاپسندوں کےخطرے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ بیس سال قبل ٹموتھی نے اوکلاہاما شہر کی وفاقی عمارت میں دھماکہ کیا تھا، جس میں 168 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔