لکھنؤ: راجدھانی میں بجلی بقایہ داروں کے خلاف چلائی جار ہی مہم کے تحت میٹروں کی جانچ بھی کی جا رہی ہے ۔ جن میٹروں کے سست ہونے کا اندیشہ ہے ان کی ایم آر آئی اور ایکو چیک سے جانچ کی جا رہی ہے۔ گذشتہ کچھ ماہ کے دوران ایسے کئی معاملہ سامنے آئے جس میں یہ دیکھا گیا کہ میٹروں میں چھیڑ چھاڑ اور سست کئے جانے کی شکایت درج کی گئی۔ لیسا انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صارفین یہ بتانے کو تیار نہیں کہ ان کا میٹر کس طرح سست ہوا۔ یا پھر اس نے خود اس میں چھیڑ چھاڑ کی۔
لیسا کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ لیسا کے ملازمین ہی میٹر سست کرنے اور بیک کرنے کے کھیل میں شامل رہے ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں جب تالکٹورہ میٹر سیکشن کے ملازم کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تو اس کے گھر سے کچھ میٹر اور میٹروں کا سامان برآمد ہوا تھا۔ ملازم رنگے ہاتھوں پکڑا گیا پولیس میں ایف آئی آر ہوئی اور ملازم کو معطل کیا گیا لیکن کچھ ماہ گزرنے کے ساتھ ہی شکتی بھون اورلیسا ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے بدعنوان افسران نے اسے بری کر دیاتھا۔ کچھ عرصہ تک لیسا سے باہر تعیناتی کے بعد آج وہ دوبارہ لیسا میں کام کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق تو ڈالی گنج کے ریوینو شعبہ کے دفتر میں تعینات ایک ٹھیکہ ملازم کا نام بھی میٹر بیک کرنے والوں کی فہرست میں درج ہے۔جبکہ تالکٹورہ میٹر سیکشن میں تو میٹر بیک کرنے والوں کا پورانیٹ ورک کام کرتا ہے۔ اسی طرح لیسا کے کچھ جے ایم ٹی(جونیئر میٹرٹسٹر) بھی میٹروں میں چھیڑ چھاڑ کرانے کا ٹھیکہ لیتے ہیں۔ عالم باغ اور عیش باغ بجلی گھر پر کام کرنے والے دو ٹھیکہ ملازمین اس شعبہ کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ لیسابھون کی میٹر لیب میں بھی میٹروں سے چھیڑ چھاڑ کرنے اورکرانے والے ملازمین بیٹھتے ہیں جو پلک جھپکتے ہی میٹروں کو سست کرانے کی ذمہ داری لیتے ہیں لیکن ان کی جانچ کرنے کی فرصت کسی کو نہیں۔ ان باتوں کا علم لیسا انتظامیہ کو اچھی طرح ہے اور کچھ صارفین کی جانب سے لیسا انتظامیہ کو مذکورہ ٹھیکہ ملازمین کے بارے میں تحریری شکایتیں بھی مل چکی ہیں۔ اس کے باوجود بھی لیسا افسر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حالانکہ چیف انجینئر لیسا یہ بیان دینے میں پیچھے نہیں ہیں کہ صارفین یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ ان کا میٹر کس نے سست کیا۔ جبکہ چیف انجینئر کے ماتحت کچھ ملازمین ہی اس گورکھ دھندے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ لیسا انتظامیہ اب میٹروں میں گڑبڑی ملنے کے بارے میں اس کی نئے سرے سے جانچ اور جائزہ لینے کی بات تو کر رہا ہے لیکن اپنے کسی بھی مشتبہ ملازم کا نام لینے کو افسر تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اگر ایسا ہوا تو محکمہ کی ہی ناکامی اجاگر ہو جائے گی۔