یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہیکروں کی صدر اوباما کی انتہائی حساس معلومات تک رسائی نہیں ہو سکی ہے
امریکی اخبار دی نیویارک ٹائمز نے خبر دی ہے کہ روسی ہیکروں نے گذشتہ سال جب وائٹ ہاؤس کے کمپیوٹر سسٹم تک رسائی حاصل کی تھی تو انھوں نے امریکی صدر اوباما کے غیر کلاسیفائڈ ای میلز یعنی ایسے ای میلز جنھیں خفیہ اور انتہائي حساس شمار نہیں کیا جاتا ویسے ای میلز پڑھ لیے تھے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ یہ ہیکنگ پہلے تسلیم کی جانے والی بے جا مداخلت سے کہیں زیادہ تھی۔
حکام نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اِن میں حساس معلومات تھیں جو اس وقت غیر کلاسیفائڈ کمپیوٹرز میں تھیں جن تک ہیکروں نے رسائی حاصل کی تھی۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال اکتوبر میں جب ہیکنگ کا علم ہوا تھا تو وائٹ ہاؤس کے ای میل نظام کو جزوی طور پر بند کر دیا گیا تھا۔
دی نیویارک ٹائمز نے لکھا: ’ایسا نظر آتا ہے کہ ہیکرز جو وزارتِ خارجہ کے غیر کلاسیفائڈ کمپیوٹر سسٹم کے بہت اندر تک پہنچ گئے تھے وہ ان سرورز میں داخل نہیں ہوسکے جن میں صدر اوباما کے بلیک بیری کے پیغامات ہوتے ہیں جنھیں صدر اوباما یا ان کا کوئی مشیر مستقل ساتھ رکھتا ہے۔
تاہم اخبار کے مطابق وائٹ ہاؤس کے افسروں نے کہا کہ ’انھوں (ہیکروں) نے وائٹ ہاؤس کے داخلی لوگوں کے ای میل آرکائیو اور شاید بعض خارجی لوگوں کے ای میل تک رسائی حاصل کرلی جن سے صدر اوباما مستقل رابطے میں رہتے ہیں۔ ان رابطوں سے وہ ان ای میلزتک پہنچے جنھیں صدر ارسال یا موصول کرتے ہیں۔
اکتوبر میں وائٹ ہاؤس کے کمپیوٹر تک ہیکروں کی رسائی کو سیکورٹی میں شگاف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے
اخبار نے واہٹ ہاؤس کے افسروں کے مطابق خبر دی ہے کہ ’کسی بھی کلاسیفائیڈ یا انتہائی حساس کمپیوٹر نیٹ ورک تک ان کی رسائی نہیں ہو سکی اور انھیں کوئی کلاسیفائڈ معلومات فراہم نہیں ہو سکی۔‘
اخبار کے مطابق وائٹ ہاؤس میں بہت سے سینیئر عہدیداروں کے پاس دو کمپیوٹرز ہوتے ہیں جن میں سے ایک انتہائی حساس اور محفوظ نیٹ ورک پر کام کرتا ہے جبکہ دوسرا غیر حساس کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
تاہم انھوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ غیر حساس نیٹ ورک والے کمپیوٹرز پر بھی اکثر و بیشتر ایسی معلومات ہوتی ہیں جنھیں انتہائی حساس تصور کیا جاتا ہے۔ ان میں لوگوں کے شیڈیول، سفیروں اور ایلچیوں کے ای میلز، پالیسی کے متعلق بحث و مباحثہ اور مستقبل میں تعینات کیے جانے والے عملے اور نافذ کیے جانے والے ضابطے شامل ہیں۔