لکھنؤ۔(نامہ نگار)۔ تین منزلہ مکان حالت ایسی کی جگہ جفگہ سے پلاسٹر اکھڑ کر گرتا ہے، چھجا ایسا کہ اس کے اندر کی سریا نظر آرہی ہے۔ منڈیر پر لمبی گھاس پیدا ہو گئی ہے۔ پوری بلڈنگ کا بوجھ اٹھائے کھمبے بھی خستہ حالت میں ہیں۔ نزدیک جاکر دیکھئے تو ایسا معلوم ہو کہ یہ عمارت کسی وقت بھی منہدم ہو سکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان عمارتوں میں لوگ رہائش پذیر ہیں۔ کئی عمارتوں میں تو باقاعدہ دفاتر قائم ہیں۔ راجدھانی میں چوک ، چوپٹیاں، نخاس، ڈالی گنج اور کھدرا وغیرہ ایسے تقریباً دو درجن علاقے ہیں جہاں پر سڑک کے کنارے سے لیکر کالونیوںاور محلوں کے اندر خستہ حال عمارتیں موجود ہیں۔ ان کے مالکان نے باقاعدہ طور پر ان میں کرایہ دار رکھے ہوئے ہیں۔ چوپٹیاں کالونی میں سڑک کے کنارے تقریباً چار عمارتیں ایسی ہیں جن کی حالت تو اتنی بدتر ہے کہ انہیں دور سے ہی دیکھ کر خوف ہونے لگتا ہے کہ یہ کبھی بھی منہدم ہو سکتی ہیں۔
یہی حال چوک چوراہے کے پاس دیکھا جا سکتا ہے جہاں پر سڑک کے کنارے ہی ایک عمارت ایسی ہے جس میں نجی کمپنیوں کے دفاتر قائم ہیں لیکن ایسی عمارتوں کی بدحالہ کو نظر انداز کرتے ہوئے متعلقہ افسران آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ محلہ اور کالونیوں کے لوگ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ ان کی شکایت نہیں کی گئی۔ ایل ڈی اے نوٹس دیتا ہے لیکن کچھ دنوں کے بعد سب رفع دفع کر دیا جاتا ہے۔ ڈالی گنج منڈی میں ایک قطار سے ایسی تقریباً کئی عمارتیں ہیں جو اب زلزلہ کا دوسرا جھٹکا شاید ہی برداشت کر سکیں۔ ڈالی گنج کے کاروباریوں کا کہنا ہے کہ نیو مضبوط ہے کچھ نہیں ہوگا لیکن عمارت میں جگہ جگہ سے اکھڑتا پلاسٹر اس کی چغلی کھاتا ہوا نظر آتا ہے کہ یہ عمارت اندر سے کھوکھلی ہو گئی ہے۔ آس پڑوس کے رہنے والے لوگ خوفزدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ عمارتیں اچانک منہدہ ہو گئیں تو یہاں کی تباہی کا منظر بہت ہی خوفناک ہوگا۔
اول تو یہ کہ یہ عمارت منڈی کے درمیان میں ہے جہاں روز ہزاروں افراد آتے جاتے ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کے آس پروس جو دیگر مکانات ہیں وہ بھی برباد ہو جائیں گے۔