قطر میں افغان طالبان کا دفتر حامد کرزئی کی جانب سے اعتراض کے بعد بند کر دیا گيا تھا
افغان طالبان نے دو روزہ قطر مذاکرات میں اپنی سابقہ شرط کو دہراتے ہوئے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے دفتر کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے اور یہ کہ غیر ملکی افواج کا انخلا ہی مفاہمتی عمل کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں سنیچر کو افغان حکومت کا ایک 20 رکنی وفد قطر پہنچا تھا۔ وفد کی سربراہی افغان صدر اشرف غنی کے چچا نعیم کوچی نے کی۔
افغان طالبان کی جانب سے بات چیت میں شامل آٹھ رکنی وفد کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے مذاکرات کے بعد اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔
پاکستانی حکومت نے صدر اشرف غنی کو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کا وعدہ کیا تھا اور اسی تناظر میں طالبان پر دباؤ ڈال کر انھیں مذاکرات کرنے پر مجبور کر دیا۔
سابق سفیر رستم شاہ مہمند
قطر مذاکرات میں افغان امن کونسل کے اراکین کے علاوہ افغانستان میں موجود دوسری بڑی مزاحمتی تحریک حزبِ اسلامی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
مذاکرات میں شامل افغان طالبان کا کہنا تھا کہ جب غیر ملکی فوجوں کا انخلا ہو گا تبھی وہ افغان مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔
اس کے علاوہ طالبان نےافغان حکام سے اپنے قطر میں واقع دفتر کو تسلیم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
خیال رہے کہ 2013 میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی جانب سے اعتراض کے بعد یہ دفتر بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم طالبان نے اصرار کیا ہے کہ ’منظم بات چیت کے لیے انھیں ایک پتے کی ضرورت ہے، جہاں وہ لوگوں کے خدشات سنیں اور ان سے بات چیت کریں۔‘
افغان طالبان نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا
مذاکرات میں طالبان نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے اپنے رہنماؤں کے نام عالمی پابندیوں کی فہرست سے نکالنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
’کوئی لائحۂ عمل نہیں‘
مذاکرات میں افغان طالبان نے یہ الزام بھی لگایا کہ ’افغان حکومت نے ابھی تک ہم سے بات چیت کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا۔‘
افغان طالبان نے بات چیت میں خطے کے کسی ملک کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک افغانستان میں مفاہمتی عمل کو مختلف ممالک نے اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔
انھوں نے ملک کے داخلی امن کے لیے پڑوسی ممالک سے رجوع کرنے کی حکومتی پالیسی پر بھی تنقید کی۔
اسی طرح انھوں نے افغان صدر کے نیٹو کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ یہ معاہدے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔
طالبان نے غیر ملکی افواج کے انخلا کو اہم قرار دیا ہے
افغان طالبان سے حالیہ یہ ملاقات ایک علاقائی کانفرنس کا حصہ تھی۔ اس کانفرنس کا اہتمام مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل کو فروغ دینے والی بین الاقوامی تنظیم پگواش کونسل نے کیا تھا جسے امن کا نوبل انعام بھی مل چکا ہے۔
ماہرین پر امید تھے کہ یہ کانفرنس افغانستان میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے باضابطہ مذاکرات کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان کے رہنما ملا عمر کو اس کی منظوری حاصل ہے کہ نہیں کیونکہ وہ گذشتہ کئی برس سے منظر عام پر نہیں آئے۔
ادھر خبر رساں ادارے روئٹرز نے کہا ہے بات چیت بے نتیجہ ختم ہو گئی اور اب امکان ہے کہ مذاکرات کا اگلا دور اگلے ہفتے متحدہ عرب امارات میں منعقد ہو گا۔
امریکہ اور پاکستان کی جانب سے بات چیت کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
لڑائی زیادہ مذاکرات کم
طالبان اور حکومت کے درمیان اس سے پہلے بھی بات چیت ہو چکی ہے تاہم اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا
خیال رہے کہ ماضی میں افغانستان میں مصالحت کرانے کے لیے کی جانے والی کوششیں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اس طرح کی ایک کوشش سنہ 2013 میں بھی کی گئی تھی اور اس کے تحت امریکہ کے کہنے پر قطر میں طالبان کا دفتر بھی قائم کیا گیا تھا۔
طالبان نے حالیہ دنوں میں بات چیت سے زیادہ لڑائی کی طرف اپنا جھکاؤ ظاہر کیا ہے۔ گذشتہ ہفتے طالبان جنگجو قندوز کے بیرونی اضلاع میں داخل ہو گئے تھے۔
چند پاکستانی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان سے بھی کچھ لوگ طالبان قطر کے مذاکرات میں شامل ہوئے ہیں۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ مذاکرات اس وقت نتائج دے سکتے ہیں جب طالبان کوآزادی کے ساتھ فیصلے کرنے دیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی حکومت نے صدر اشرف غنی کو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کا وعدہ کیا تھا اور اسی تناظر میں طالبان پر دباؤ ڈال کر انھیں مذاکرات کرنے پر مجبور کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔