نیپال کے بیشتر فوجی زلزلے سے متاثرین افراد کو امداد فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب آپ کسی کی مدد کریں اور ساتھ ہی اس کی ناک زمین پر رگڑیں تو مدد لینے والے کو پسند نہیں آتا؟ یہ بات اپنی سمجھ سے تو باہر ہے۔
لوگوں کو عام طور پر یہ بات مشکل سے ہی سمجھ میں آتی ہے۔ صدر براک اوباما کے دوسرے الیکشن سے ذرا پہلے ٹی وی پر ایک مباحثے کے دوران ایک سابق امریکی اہلکار نے سٹوڈیو میں موجود لوگوں کے سامنے یہ معصوم سوال اٹھایا تھا کہ ہم (یعنی امریکہ) دنیا کو سب سے زیادہ امداد فراہم کرتے ہیں، تو پھر بہت سے لوگ ہمیں پسند کیوں نہیں کرتے؟
کسی نے بہت مہذب انداز میں جواب دیا تھا کہ مسئلہ ’پرسپشن‘ کا ہے، بہت سے لوگوں کو غلط یا صحیح، یہ لگتا ہے کہ آپ امداد تو دیت
ے ہیں لیکن ساتھ میں زمین پر ناک بھی رگڑواتے ہیں۔
بھارتی میڈیا پر اس سے قبل بھی سوال اٹھتے رہے ہیں
لیکن اگر ایکسرسائز بھی ہو جائے اور مدد بھی مل جائے تو اس میں برائی کیا ہے؟ اگر یہ پیکج ڈیل ہے تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔
نیپال میں بڑے پیمانے پر زلزلے سے تباہی ہوئی، ہزاروں زندگیاں تباہ ہوگئیں، سب سے پہلے مدد کے لیے ہندوستان نے ہاتھ آگے بڑھایا، ہاتھ میں امدادی سامان بھی تھا اور ساتھ میں مائک اور کچھ کیمرے بھی!
کچھ صحافیوں نے نیپال کی تکلیف دنیا تک پہنچائی، کچھ نے نیپالیوں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ بھائی آپ کی مدد کا بہت شکریہ، بس اب گھر جائیے!
سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئیٹر پر اس طرح کے مباحثے نظر آئے
نیپالی ٹوئٹر پر یہ کہتے رہے کہ زلزلے کی کہانیاں کچھ اس اندازمیں پیش کی جارہی ہیں جیسے ٹی وی پر کوئی سیریئل چل رہا ہو، کسی کے غم کا احترام نہیں، کسی کی تکلیف کی فکر نہیں۔ سابق وفاقی وزیر ششی تھرور نے کہا کہ ہمارا میڈیا ہندوستان کے لیے شرمندگی کا سبب بن رہا ہے۔۔۔میڈیا کے لیے اپنی ذمہ داری سمجھنے کا وقت آگیا ہے۔
سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے ٹوئٹر پر کہا کہ زلزلے کے باوجود نیپالی ہمارے صحافیوں کو چھ دن نہیں جھیل سکے، معلوم نہیں کہ ہم انہیں کیسے برداشت کرتے ہیں!
بھارت نے نیپال زلزلے سے متاثرین کے لیے امداد میں پہل کی
لیکن بے چارے میڈیا والے جائیں تو جائیں کہا؟ وہ واپس گھر آ بھی جائیں تو کیا ہے، یہاں بھی استقبال تقریباً اسی انداز کا ہوگا۔
عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ ہندوستانی میڈیا کا ایک بڑا حصہ بکا ہوا ہے اور ان کی پارٹی کو ختم کرنے کی مہم میں لگا ہوا ہے۔۔۔انھیں عام آدمی پارٹی کو ختم کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے!
یہ سنگین الزام تو ہے ہی، میڈیا کی قابلیت پر تبصرہ بھی ہے۔ جس پارٹی کو تباہ کرنے کے لیے میڈیا نے مبینہ طور پر پیسے لیے اس نے دہلی کے الیکشن میں 70 میں سے 67 سیٹیں حاصل کیں!
اب تو کیجریوال خود یہ دعا کر رہے ہوں گے کہ پنجاب اور بہار کے اسمبلی انتخابات میں بھی میڈیا کے دو چار خریدار مل جائیں!