مجموعی طور پر ’ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے‘ کی توجیح انتہائی عامیانہ ہے کیونکہ اس سے تنازعے کا رخ بیرونی قوتوں کی جانب مڑ جاتا ہے
سنی طاقت کا حامل سعودی عرب دانستہ یا غیر دانستہ طور پر یمن میں لڑائی کو اپنے علاقائی حریف شیعہ ملک ایران کے خلاف پراک
سی جنگ کے طور پر پیش رہا ہے، تاہم یہ تنازعے کا ایک خطرناک حد تک غلط پہلو ہے۔
سعودی عرب ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ہر جگہ دیکھ رہا ہے۔ شمال میں عراق اور شام سے مشرق میں بحرین اور ان کا اپنا ملک اور اب جنوب میں یمن۔
تاہم یہ نقطۂ نظر یمن کی اندرونی سیاست کی پیچیدگیوں نظر انداز کرتا ہے اور ایران کے کردار کو ضرورت سے زیادہ تصور کرتا ہے۔ ایسا امکان نہیں ہے کہ اس کا کوئی کامیاب نتیجہ برآمد ہو گا جیسا کہ سعودی عرب کی سربراہی میں بمباری کی مہم میں دیکھا گیا کہ تاحال اس کے مقاصد بھی حاصل نہیں ہو سکے۔
حوثی بنیادی طور پر ایک قبائلی لقب ہے جسے شیعہ مذہب کی شاخ زیدی سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ ایران میں اثنا عشری شیعہ غالب ہے۔
اول تو یہ کہ تمام حوثی زیدی نہیں ہیں اور نہ ہی تمام زیدی حوثی ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ زیدی شیعوں کی وہ شاخ ہے جو سنی عقائد کے ساتھ کم سے کم متصادم ہے۔
حوثیوں اور ایران کے درمیان جو بھی مشابہت ہے، یہ ایک بالواسطہ خیال ہے کہ مذہبی مشابہت کی اہمیت ہے۔ عقیدے کی بنیاد پر برائے نام یک جہتی یا تقسیم، یہ عنصر عملی طور پر کم ہی اتنا کارگر ہوتا ہے جتنا لوگ اسے سمجھتے ہیں۔
ایران اور حوثیوں کے درمیان اس مشابہت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ دونوں کھلے عام امریکہ اور اسرائیل مخالفت کا اظہار کرتے ہیں، اور گذشتہ کچھ برسوں میں ایسے مواقع بھی آئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حوثی کسی نہ کسی حوالے سے ایران کے ساتھ معاونت کر رہے ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے 21 اپریل 2015 کو یمن میں فضائی بمباری ختم کرنے کے اعلان کیا گیا تھا
رواں سال فروری میں جس دن حوثیوں نے یمنی دارالحکومت صنعا پر قبضہ کیا تھا اس کے اگلے روز ایران کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور ایران کی ماہان ایئرلائنز کا طیارہ وہاں اترا۔
تاہم سرسری طور پر حوثیوں کو ’ایران کے حمایت یافتہ‘ ہونے کا لیبل لگانے سے اندرونی نوعیت کے تنازعے پر پردہ پڑتا ہے جو عرب سپرنگ سے پہلے کا ہے۔
زیدی ایک ہزار سال سے زائد عرصہ سے سنہ 1962 تک یمن کے کچھ حصوں پر حکمرانی کرتے ہیں اور یہاں تک کہ 1970 کی دہائی میں انھیں سعودی عرب کی حمایت بھی حاصل رہی تھی۔
تاہم 1990 کی دہائی میں حوثی زیدی احیائے دین کا پرچم لے کر ابھرے اور انھوں نے سنہ 2004 سے 2010 کے درمیان سعودی حمایت یافتہ صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف ہتھیار اٹھائے، جن کا تعلق بھی زیدی فرقے سے تھا۔
چانچہ ماضی میں مذہبی تقریق نے اس وقت تک حیران کن طور پر بہت کم کردار ادا کیا تھا اور 1990 کی دہائی میں سعودی عرب کی جانب سے سنی اسلام کے مخصوص کٹر نظریات کے پھیلاؤ تک اس تفریق شدت میں اضافہ نہیں ہوا تھا۔
حوثیوں کا خیال تھا کہ اس طرح کی حکمت علمیاں انھیں ان کی پوزیشن سے مزید پیچھے دھکیلنے کے لیے تیار کی جا رہی ہیں۔
ایران اور حوثی کھلے عام امریکہ اور اسرائیل مخالفت کا اظہار کرتے ہیں
حکومتی فوجوں کے خلاف متعدد لڑائیوں نے حوثیوں کو وہ جنگی تربیت اور تجربہ حاصل ہے جو انھیں سنہ 2009 میں یمن میں سعودی فوجوں کو شکست دینے کے لیے درکار تھا اور بظاہر انھوں نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے فضائی کارروائیوں کا نسبتاً بہتر انداز میں سامنا کیا ہے۔
اس سے بھی اہم شاید یہ ہے کہ کئی برسوں کی جنگ نے یمن کو ہتھیاروں سے لیس کر دیا ہے۔
ایران پر ایسے بیشتر الزامات ہیں کہ وہ حوثیوں کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ کچھ رپورٹیں قابلِ اعتماد نہیں جیسا کہ سعودی عرب کے سرکاری العریبیہ ٹی وی کا اصرار ہے کہ 185 ٹن ایرانی ہتھیاربین الاقوامی نیول ٹاسک فورس کی ناکہ بندی کے باوجود معجزانہ طور پر یمن پہنچ گئے۔
جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ میں ان الزامات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی، ایک حالیہ غیر شائع شدہ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ایران کی حمایت کا سراغ ملے ہیں۔
اس کے باوجود حوثیوں کو ہتھیاروں کی شکل میں واضح طور پر مدد علی عبداللہ صالح کی جانب سے حاصل ہے جنھوں نے سنہ 2014 میں صنعا پر قبضے میں حوثیوں کی حمایت کی تھی۔
اس کی وجہ سے حوثیوں کو فوجی مراکز سے امریکی اسلحہ حاصل کرنے کا موقع ملا۔
گذشتہ کچھ برسوں میں ایسے مواقعے بھی آئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حوثی کسی نہ کسی حوالے سے ایران کے ساتھ معاونت کر رہے ہیں
مجموعی طور پر ’ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے‘ کی توجیح انتہائی عامیانہ ہے کیونکہ اس سے تنازعے کا رخ بیرونی قوتوں کی جانب مڑ جاتا ہے۔
اگر ایران ہتھیاروں کی رسد کا اہم ذریعہ ہے تو فضائی بمباری قابل فہم ہے۔
دوسری جانب حال ہی میں حزیرہ نما عرب میں القاعدہ نے جنوبی شہر مکلا کے ایئرپورٹ، فوجی اڈے اور ایک جیل پر قبضہ کرتے ہوئے بیسیوں قیدی چھڑوا لیے جن میں القاعدہ کے رہنما بھی شامل تھے۔
جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کی باقیات امریکہ کے لیے یمن میں مداخلت کا واحد عنصر ہے، اور اگر اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے تو امریکہ کو سعودی قیادت میں اس کارروائی کے بارے میں بھی سوچنا ہو گا۔
اگر امریکہ اس جنگی مہم کے اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کرے تو یہ یہ حیران کن نہیں ہو گا کہ سعودی عرب کی جانب سے 21 اپریل 2015 کو فضائی بمباری ختم کرنے کے اعلان میں القاعدہ کا بھی کردار ہو سکتا ہے۔
تاہم سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی ممالک کی یمن میں حکمت عملی ناگزیر ہے۔