سعودی عرب کے نئے بادشاہ شاہ سلمان بِن عبدالعزیز نے امریکی صدر براک اوباما کی میزبانی میں آئندہ جمعرات کو بلائے گئے خلیجی ممالک کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی ہے۔
خیال رہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ نے 17 اپریل کو ایک بیان میں بتایا تھا کہ خلیجی تعاون کونسل کے رکن ممالک کویت
متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، بحرین، قطر اور عمان کے سربراہان کا 13 مئی کو وائٹ ہاؤسں اور 14 مئی کو کیمپ ڈیوڈ میں خیرمقدم کیا جائے گا۔
بتایا گیا کہ اجلاس کا مقصد دو طرفہ اور سکیورٹی امور میں تعاون بڑھانے پر بات چیت کرنا ہے۔
کیوں شریک نہیں ہوں گے؟
وزیرِ خارجہ عادل بن الجبیر کے مطابق شاہ سلمان بن عبدلعزیز اجلاس میں شریک نہیں ہو سکیں گے بتایا گیا ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر یمن میں جنگ بندی متوقع ہے اور ’ کنگ سلمان سینر فار ہیومینیٹیرین‘ کا افتتاح بھی ہونا ہے۔
اتوار کو امریکہ میں سعودی سفارت خانے سے وزیرِ خارجہ عادل بن الجبیر کا بیان جاری کیا گیا۔ جس کے مطابق صدر اوباما کی دعوت پر بلوائے جانے والے اجلاس میں نئے ولی عہد شہزادہ محمد بِن نائف سعودی عرب کی نمائندگی کریں گے۔ ان کے ساتھ نائب ولی عہد اور وزیرِ داخلہ بھی موجود ہوں گے۔
سعودی وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز خلیجی ممالک کے اجلاس کی ٹائمنگ کی وجہ سے اس میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔
تحریری بیان میں شاہ سلمان کی پہلے سے طے شدہ مصروفیات کا ذکر بھی کیا گیا اور بتایا گیا کہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر یمن میں جنگ بندی متوقع ہے اور ’ کنگ سلمان سینٹر فار ہیومینیٹیرین ایڈ‘ کا افتتاح بھی ہونا ہے۔
امریکی منصوبہ کمزور
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق براک اوباما کا منصوبہ کمزور دکھائی دیتا ہے کیونکہ ابھی صرف خلیجی ممالک کے دو سربراہان نے ہی اس اجلاس میں شرکت پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے اس سے پہلے امید ظاہر کی تھی ہے کہ سعودی بادشاہ خود اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔
دوسری جانب اتوار کو ہی معلوم ہوا کہ بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسٰی الخلیفہ بھی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں اور ان کی جگہ ان کے ولی عہد جائیں گے۔
اس صورتحال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صدر اوباما صرف کویت اور قطر کے سربراہان سے ملاقات کر سکیں گے۔
وائٹ ہاؤس کو امید تھی کہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کے بارے میں خلیجی ممالک کے خدشات کو دور کیا جا سکے گا۔
خیال رہے کہ امریکہ سمیت چھ ممالک اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ جون میں متوقع ہے۔
تہران سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو محدود رکھے گا جس کے بدلے میں اس پر عائد عالمی پابندیاں ہٹا دی جائیں گی اور اسے کئی کھرب ڈالر کے فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔
تاہم خلیجی ممالک کو خطرہ ہے کہ ایران اس پیسے کو ہتھاروں کے لیے ہی استعمال کرے گا اور خطے میں موجود شیعہ پراکسی گروہوں کی حمایت پر لگائے گا۔
توقع کی جارہی ہے کہ خلیجی ممالک کے ساتھ طے شدہ اجلاس میں ایران کے جوہری پروگرام کے علاوہ یمن، عراق، شام کی صورتحال بھی زیرِ غور آئے گی۔