واشنگٹن: امریکا کے ایک تحقیقی صحافی اور مصنف سیمور ایم ہرش کے مطابق امریکا اسامہ بن لادن تک پاکستان کی مدد سے پہنچا تھا، لیکن اس نے اس کارروائی کو اس انداز سے ظاہر
کیا کہ پاکستان کو مجرم بنادیا۔
کیا کہ پاکستان کو مجرم بنادیا۔
جب ڈان نے سیمور ایم ہرش سے پوچھا کہ کیا انہیں یقین ہے کہ امریکا پاکستان کی مدد سے القاعدہ کے رہنما تک پہنچا تھا، تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام نے امریکا کی مکمل مدد کی۔‘‘
لندن ریویو آف بکس میں اتوار کو شایع ہونے والی ایک اسٹوری میں سیمور نے واضح کیا کہ ’’آپریشن نیپچیون‘‘ کے بارے میں امریکا کا سرکاری نکتہ نظر ایک فرضی کام یا پریوں کی داستان کی طرز کا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ وہائٹ ہاؤس نے امریکی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ مشن تیار کیا اور پاکستانی فوج اور انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سینئر جنرلوں کو اس چھاپہ مار کارروائی کے بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں بتایا تھا۔
سیمور ہرش نے لکھا ہے کہ ’’یہ بہت بڑا جھوٹ تھا کہ پاکستان کے دو سب سے سینئر فوجی رہنماؤں (ریٹائرڈ) جنرل اشفاق پرویز کیانی (جو اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف تھے)، اور اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل احمد شجاع پاشا کو امریکی مشن سے کبھی مطلع نہیں کیا گیا تھا۔‘‘
ڈان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سیمور ہرش نے کہا کہ یہ آپریشن ایک مداخلت کے ساتھ شروع ہوا اور بالآخر اسامہ بن لادن کی موت پر ختم ہوا۔
انہوں نے کہا ’’اگست 2010ء کے دوران پاکستان کے ایک سابق انٹیلی جنس افسر نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پر اس وقت کے سی آئی اے کے اسٹیشن چیف جوناتھن بینک سے رابطہ کیا۔ انہوں نے سی آئی اے کو پیشکش کی کہ وہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں مدد کے لیے تیار ہیں، بدلے میں انہوں نے وہ انعام طلب کیا، جس کا اعلان واشنگٹن نے 2001ء میں کیا تھا۔‘‘
سیمور ہرش نے کہا کہ انٹیلی جنس کے مذکورہ سابق عہدے دار فوج کے آدمی تھے، اوروہ اب واشنگٹن میں مقیم ہیں اور سی آئی اے کے لیے بطور مشیر کام کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا ’’میں ان کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں بتاسکتا، اس لیے کہ یہ مناسب نہیں ہوگا۔‘‘
سیمور ہرش نے اس خیال کو مسترد کردیا کہ اسامہ بن لادن اپنے ذاتی خفیہ ٹھکانے میں مقیم تھا اور اردگرد کے علاقوں میں آزادانہ نقل و حرکت کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن آئی ایس آئی کے قیدی تھا اور اس کی نگرانی کے بغیر انہوں نے کبھی آزادانہ نقل و حرکت نہیں کی۔
سیمور ہرش نے کہا کہ سعودی حکومت بھی اس بارے میں جانتی تھی اور اس نے پاکستانیوں کو مشورہ دیا تھا کہ اسامہ بن لادن کو ایک قیدی کے طور پر رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جب امریکیوں نے پاکستان حکومت سے رابطہ کرکے اسامہ بن لادن کے بارے میں دریافت کیا تو آئی ایس آئی نے اصرار کیا تھا کہ انہیں مار دیا جائے اور ان کی ہلاکت کا اعلان اس آپریشن کے ایک ہفتے کے بعد کیا جانا چاہیے۔
سیمور ہرش کا کہنا تھا کہ امریکیوں کو یہ کہنے کی ضرورت تھی کہ القاعدہ کے سربراہ ہندوکش کے پہاڑی علاقے میں ملے تھے تاکہ انہیں رکھنے کے لیے نہ تو پاکستان اور نہ ہی افغانستان کو موردِالزام ٹھہرایا جاتا۔
امریکی مصنف نے کہا کہ آئی ایس آئی ان کی ہلاکت چاہتی تھی، اس لیے کہ ’’وہ نہیں چاہتی تھی کہ ان کے خلاف کوئی گواہ موجود ہو۔‘‘
ان کے مطابق امریکیوں نے ایبٹ آباد میں ایک نگرانی کی چوکی قائم کی اور بعد میں آئی ایس آئی کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ اس آپریشن سے قبل آئی ایس آئی نے تربیلہ، غازی میں ایک سیل قائم کیا، جہاں ’’امریکن نیوی سیلز کے ایک سپاہی اور دو رابطہ کاروں نے اس چھاپہ مار کارروائی کی مشق کی۔‘‘
سیمور ہرش نے کہا کہ صدر بارک اوباما نے شہ سرخی کی یہ خبر جاری کرنے اور براہِ راست نشریات پر قوم کو آگاہ کرنے سے قبل اس وقت کے فوجی یا آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل کیانی اور جنرل پاشا سے مشورہ نہیں کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’’اس کور اسٹوری نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہ ان کے لیے انتہائی شرم کا باعث تھا۔ پاکستان کے پاس ایک اچھی فوج ہے، بُری فوج نہیں ہے، لیکن اس کور اسٹوری نے اس کو بُرا بنادیا۔‘‘
سیمور ہرش نے یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی سی آئی اے سے روابط رکھنے پر اب جیل میں ہیں، وہ سی آئی اے کا اثاثہ تھے، لیکن انہیں اس آپریشن کے بارے میں علم نہیں تھا۔ انہیں حقیقی اسٹوری کو چھپانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
اوباما کے اقدامات
سیمور ہرش نے یہ بھی کہا کہ سابق سیکریٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے اس کور اپ اسٹوری سے اختلاف کیا تھا، وہ چاہتے تھے کہ امریکا پاکستان کے ساتھ کیے گئے انتظامات کا احترام کرے۔
انہوں نے کہا ’’صدر اوباما نے اس منصوبے کو تبدیل کردیا اس لیے کہ وہ ضمنی انتخاب کے میں مصروف تھے۔ ان کی تقریر میں دو گھنٹوں کی تاخیر ایک اندرونی بحث کی وجہ سے ہوئی تھی۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی تحقیقات سے پاکستان ایک مجرم کے طور پر ظاہر ہوا یا پھر ایک اتحادی کے طور پر، تو انہوں نے فوری طور پر کہا ’’مکمل طور پر ایک اتحادی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’یہاں (واشنگٹن) میں غم و غصہ پایا گیا تھا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو اتنے برسوں تک رکھا ہوا تھا، اور ہمیں کچھ نہیں بتایا۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور وہ ان کا تحفظ کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’امریکیوں کی جانب سے پاکستانیوں کے ساتھ انتہائی بُرا سلوک کیا گیا۔‘‘
سیمور ہرش نے کہا کہ یہ کور اَپ اسٹوری تھی، جس نے پاکستانی فوج کے ساتھ امریکی تعلقات میں تلخیاں پیدا کیں اور اسے بُری صورت دے دی۔
انہوں نے کہا ’’ہم ان کے ساتھ تعلقات کا بہت مضبوط پس منظر رکھتے ہیں۔ یہ جاری ہے اور اب اس کو ایک اچھی صورت دی گئی ہے۔‘‘
لندن ریویو آف بکس (ایل آر بی) کے لیے لکھی گئی اسٹوری میں سیمور ہرش کا کہنا ہے کہ جب پاکستانی انٹیلی جنس کے سابق عہدے دار اسامہ بن لادن کے بارے میں اطلاعات کےساتھ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پہنچے تو سی آئی اے نے ان پر یقین نہیں کیا۔
چنانچہ ایجنسی کے ہیڈکوارٹرز نے ایک پولی گراف ٹیم بھیجی اور جب پاکستانی عہدے دار اس جانچ میں پورے اُترے تو سی آئی اے نے ان کی بات پر یقین کرنا شروع کیا۔
اگرچہ سیمور ہرش نے اس اسٹوری کے لیے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ سمیت بڑی تعداد میں لوگوں سے بات کی، تاہم امریکی انٹیلی جنس کے ایک سینئر ریٹائرڈ عہدے دار ان کا اہم ذریعہ تھے، جنہوں نے انہیں بتایا کہ ابتداء میں امریکیوں نے پاکستانیوں کو اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا تھا کہ انہیں مذکورہ ریٹائرڈ پاکستانی عہدے دار سے کیا کچھ معلوم ہوا ہے۔
یہاں سیمور ہرش لندن ریویو آف بکس (ایل آر بی) کے لیے لکھی گئی اسٹوری کے ایک حصے میں امریکی انٹیلی جنس کے مذکورہ سینئر ریٹائرڈ عہدے دار کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’’یہ خوف تھا کہ اگر ذرائع کی موجودگی کا علم ہوگیا تو پاکستانی اسامہ بن لادن کو کسی اور مقام پر لے جائیں گے۔چنانچہ لوگوں کی انتہائی مختصر تعداد کو اس ذریعہ اور اس کی اسٹوری کے بارے میں بتایا گیا۔‘‘
ایبٹ آباد کے اس کمپاؤنڈ کی سیٹیلائٹ سے نگرانی شروع کردی گئی۔
سی آئی اے نے نگرانی کو آگے بڑھانے کے لیے ایبٹ آباد میں ایک گھر کرائے پر حاصل لیا، اور وہاں پاکستانی ملازمین اور غیرملکیوں پر مشتمل عملے کو تعینات کیا گیا۔
بعد میں یہ گھر آئی ایس آئی کے ساتھ رابطے کا ایک مرکز بن گیا۔ اس مرکز پر لوگوں نے توجہ نہیں دی، اس لیے کہ ایبٹ آباد ایک تفریحی مقام ہے، اور یہاں ایسے گھروں کی بڑی تعداد ہے، جو مختصر عرصے کے لیے کرائے پر دیے جاتے ہیں۔
اس کے بعد مخبر کا نفسیاتی خاکہ تیار کیا گیا۔ (واضح رہے کہ مخبر اور ان کے خاندان کو غیرقانونی طور پر پاکستان سے باہر منتقل کرکے واشنگٹن کے علاقے میں آباد کردیا گیا۔وہ اب سی آئی اے کے لیے بطور مشیر کام کررہے ہیں۔‘‘
امریکی انٹیلی جنس کے سینئر ریٹائرڈ عہدے دار کے مطابق ’اکتوبر میں فوجی اور انٹیلی جنس برادری نے ممکنہ فوجی آپشنز پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔ اس وقت سوچا گیا کہ کیا ہمیں اس کمپاؤنڈ پر ایک بم گرانا چاہیے؟ یا ڈرون حملے سے انہیں باہر نکلنے پر مجبور کرنا چاہیے؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کو انہیں قتل کرنے کے لیے بھیجا جائے، تاہم اس وقت ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ کون ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’رات کے وقت اردگرد کچھ لوگوں کو ہم چلتے پھرتے دیکھ سکتے تھے، لیکن ہم نے کوئی مداخلت نہیں کی، اس لیے کہ کمپاؤنڈ سے کوئی اطلاع باہر نہیں آرہی تھی۔‘
ریٹائرڈ عہدے دار نے کہا کہ اکتوبر میں صدر اوباما کو انٹیلی جنس کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔ ان کا ردّعمل محتاط تھا۔
’اس سے کوئی احساس پیدا نہیں ہورہا تھا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں مقیم ہیں۔ یہ کافی حد تک پاگل پن تھا۔ صدر کا مؤقف مضبوط تھا، انہوں نے کہا ’’مجھ سے اس بارے میں اس وقت تک بات نہ کی جائے، جب تک آپ کے پاس یہ ثبوت نہ ہو کہ وہاں واقعی اسامہ بن لادن موجود ہیں۔‘‘
اوباما کی حمایت
سی آئی اے کی قیادت اور جوائنٹ اسپیشل آپریشنز کمانڈ کا فوری مقصد اوباما کی حمایت حاصل کرنا تھا۔
ان کا خیال تھا کہ وہ یہ حمایت حاصل کرہی لیں گے، اگر انہیں ڈی این اے ثبوت مل گیا تو اور اگر وہ انہیں یہ یقین دلاسکے کہ رات کے وقت اس کمپاؤنڈ پر حملے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ریٹائرڈ امریکی عہدے دار نے کہا کہ ان دونوں چیزوں کی تکمیل کا ایک ہی راستہ تھا کہ پاکستانیوں کو اعتماد میں لیا جائے۔
2010ء کےموسمِ خزاں کے اواخر کے دوران امریکیوں نے اس حوالے سے خاموشی برقرار رکھی، اور جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے اپنے ہم منصب امریکیوں سے یہ اصرار جاری رکھا کہ اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کے بارے میں ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہے۔
اگلا قدم یہ تھا کہ کیانی اور پاشا کو کس طرح یہ بتایا جائے کہ ہمیں ملنے والی انٹیلی جنس یہ ظاہر کررہی ہیں کہ اس کمپاؤنڈ میں ایک ہائی پروفائل ہدف موجود ہے، اور ان سے کس طرح یہ پوچھا جائے کہ وہ اس ہدف کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔
ریٹائرڈ امریکی عہدے دار نے کہا ’اس کمپاؤنڈ کا مسلح احاطہ نہیں کیا گیا تھا، اور نہ ہی اس کے اردگرد مشین گنیں نصب تھیں، اس لیے کہ یہ آئی ایس آئی کے کنٹرول میں تھا۔‘
جیسا کہ اس اسٹوری میں واضح کیا گیا کہ پاکستانی انٹیلی جنس کے سابق عہدے دار نے امریکا کو بتایا کہ اسامہ بن لادن ہندو کش کے پہاڑوں میں اپنی بعض بیویوں اور بچوں کے ہمراہ 2001ء سے 2006ء کے دوران روپوش تھے، اور یہ کہ ’بعض مقامی قبائلی افراد کو آئی ایس آئی نے ادائیگی کرکے انہیں دھوکے سے حاصل کرلیا تھا۔‘
پاکستانی عہدے دار نے سی آئی اے کے اسٹیشن چیف کو یہ بھی بتایا کہ اسامہ بن لادن بہت بیمار تھے، اور ایبٹ آباد میں ان کی قید کی ابتداء میں آئی ایس آئی نے ایک ڈاکٹر اور پاکستانی فوج کے میجر عامر عزیز کوان کے علاج کے لیے وہاں بھیجا تھا۔
ریٹائرڈ عہدے دار نے کہا ’سچ تو یہ ہے کہ اسامہ بن لادن چلنے پھرنے سے معذور تھے، لیکن یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔‘
’’آپ کا مطلب ہے کہ آپ لوگوں نے ایک معذور شخص کو گولی ماردی؟ پھر وہ کون تھا جس کے پاس اے کے-47 تھی؟‘‘
ریٹائرڈ عہدے دار کے مطابق اس ابتدائی نکتے پر پریشان کن عنصر سعودی عرب تھا، جس نے اسامہ بن لادن کو قید میں رکھنے کے پاکستانیوں کو سرمایہ فراہم کیا تھا۔
انہوں نے کہا ’’سعودی عرب نہیں چاہتا تھا کہ اسامہ بن لادن کی مودگی کا انکشاف ہم پر کیا جائے، اس لیے کہ وہ ایک سعودی تھے، اور اسی بنا پر انہوں نے پاکستانیوں سے کہا کہ انہیں منظرعام سے دور رکھا جائے۔‘‘
سعودیوں کو خطرہ تھا کہ اگر ہمیں اس بارے میں علم ہوگیا تو ہم پاکستانیوں پر دباؤ ڈالیں گے کہ ہمیں اس بارے میں بتایا جائے کہ سعودی القاعدہ کے ساتھ کیا کررہے تھے۔ اور اس کے لیے وہ خاصی رقم خرچ کررہے تھے۔
اوباما کو اس یقین دہانی کے لیے فکر تھی کہ امریکا درست ہدف کی جانب بڑھ رہا تھا۔ یہ ثبوت اسامہ بن لادن کے ڈی این سے سامنے آنا تھا۔
منصوبہ سازجنرل کیانی اور جنرل پاشا کی مدد کے لیے تیار ہوگئے، جنہوں نے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر عامر عزیز سے کہا۔
اس چھاپہ مار کارروائی کے فوراً بعد پریس کو معلوم ہوگیا کہ ڈاکٹر عامر عزیز اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کے قریب مقیم تھے۔ مقامی صحافیوں نے انکشاف کیا تھا کہ اردو زبان میں ان کے نام کی تختی ان کے دروازے پر نصب تھی۔
پاکستانی حکام نے اس بات کو مسترد کردیا کہ ڈاکٹر عامر عزیز کا اسامہ بن لادن سے کسی قسم کا کوئی رابطہ تھا، لیکن ریٹائرڈ عہدے دار نے سیمور ہرش کو بتایا کہ امریکا نے ڈاکٹر عامر عزیز کو ڈھائی کروڑ ڈالرز کے انعام سے نوازا تھا،اس لیے کہ انہوں نے ڈی این اے کا وہ نمونہ فراہم کیا تھا، جس سے یہ حتمی طور پر واضح ہوگیا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں موجود تھے۔