اسامہ بن دلان دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجی کارروائی میں ہلاک ہوئے تھے
تحقیقاتی صحافت کے معروف امریکی صحافی سیمور ہرش کی پاکستان میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں تلاش کرنے اور یکطرفہ آپریشن میں ہلاک کرنے کے بارے میں
ایک نئی رپورٹ کے بعد اس آپریشن کے بارے میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن دلان کو ہلاک کرنے کی فوجی کارروائی پاکستانی فوج کے اعلیٰ اہلکاروں کی مدد سے کی تاہم آپریشن کے بعد پاکستان کو امریکی انتظامیہ نے ’ولن‘ کے طور پر پیش کیا۔
’قومی امکان ہے کہ آئی ایس آئی اسامہ کے بارے میں جانتی تھی‘
عائشہ صدیقہ کا انٹرویو
بریگیڈیئر سعد اور واجد شمس الحسن کی گفتگو
سیمور ہرش کے اسامہ بن لادن کی رپورٹ پر اکثر مبصرین نے کسی قسم کی حیرانگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس کے چند مندرجات کو ’ڈرامائی رنگ‘ میں پیش کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
دفاعی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس رپورٹ میں امریکی صدر اوباما کے خلاف جوش و جذبہ اور غصہ بھی جھلکتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ کیا یہ تین ماہ پہلے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کے الجزیرہ ٹی وی چینل کو دیے جانے والے انٹرویو کا رد عمل ہے جس میں انھوں نے تقریباً یہ بتا دیا کہ اسامہ بن دلان کی موجودگی کے بارے میں آئی ایس آئی اور فوج کو علم تھا۔۔۔ لگتا یہی ہے کہ پردے کے پیچھے سے کوئی گفتگو ہو رہی ہے۔‘
اس رپورٹ کے تناظر میں امریکی اور پاکستانی سکیورٹی اسٹyبلشمنٹ کے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ نے کہا کہ’یہ کھیل ہی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوجیوں کے درمیان تھا جس میں امریکی فوج، سی آئی اے، پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس رپورٹ کے ذریعے فوجیوں اور ایجنسیوں کے درمیان پیغامات کا کوئی تبادلہ ہو رہا ہے یا کوئی گفتگو ہو رہی ہے جس کا ہم حصہ نہیں ہیں۔‘
امریکی حکام اسامہ کی لاش اپنے ساتھ لے گئے
عائشہ صدیقہ کے مطابق یہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے اس رپورٹ سے پہلے ہی لندن میں لوگوں کو یہ بات کہہ دی ہو کہ پاکستان کو اس معاملے کا علم تھا کیونکہ وہ خود لندن میں منعقدہ اس سیمنیار میں شامل تھیں جس میں اسد درانی نے اسامہ کی موجودگی کے بارے میں بات کی تھی اس وقت انھیں یہ محسوس ہوا تھا کہ جنرل ریٹائرڈ درانی بظاہر کسی اور کو یہ پیغام دے رہے ہیں۔
سیمور ہرش کی رپورٹ پر ڈاکٹر عائشہ نے مزید کہا کہ اس سے امریکہ سے تعلقات پر شاید کوئی زیادہ اثر نہ پڑے لیکن ملک کے اندر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال زور پیدا ہوا ہو گا کہ حقائق کیا ہیں جبکہ فوج کے اندر بھی سوالات کیے جائیں گے اور فوجی سربراہ پر دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دو قدم پیچھے ہٹ جائیں۔
برطانیہ میں سابق پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ شاید کسی اور چیز پر پردہ ڈالنے کے لیے شائع کی گئی ہے لیکن اس میں چند حقائق پر اختلاف نہیں ہے جس میں یہ کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان کی موجودگی کے بارے میں پاکستانی فوج کے علاوہ امریکی فوج بھی بخوبی آگاہ تھی۔
سیربین میں رپورٹ کے بارے میں بریگیڈئیر ریٹائرڈ سعد نے بھی واجد شمس الحسن کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں کچھ حقائق ہیں جبکہ باقی سب معلومات کو ایک فلمی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں علم تھا اور فوج کی قیادت کی جانب سے اس واقعے پر اس وقت سخت ردعمل سامنے آیا جب فوج کے اندر اس واقعے پر غم و غصے کا اظہار کیا جانے لگا۔