نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں کم از کم دو عمارت زمیں بوس ہو گئی ہے جس میں لوگوں کے پھنسے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے
ڈھائی ہفتے کے دوران دو بڑے زلزلوں کا نشانہ بننے والے جنوبی ایشیائی ملک نیپال کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ منگل کو آنے والے زلزلے میں ہلاک
ہونے والوں کی تعداد 65 تک پہنچ گئی ہے۔
اس زلزلے سے شمالی بھارت میں 17 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ تبت میں بھی ایک ہلاکت ہوئی ہے۔
نیپالی وزارتِ داخلہ کے ترجمان لکشمی پرساد ڈھكال نے بی بی سی نیپالی سے بات کرتے ہوئے 65 ہلاکتوں کی تصدیق کی اور بتایا کہ زلزلے سے دو ہزار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
نیپال میں زلزلوں سے تباہی: خصوصی ضمیمہ
پے در پے زلزلے، متاثرین اور امدادی کام: تصاویر
نیپال اتنا غیرمحفوظ کیوں؟
امریکہ کا کہنا ہے کہ امدادی کاموں میں شامل اس کا ایک ہیلی کاپٹر بھی لاپتہ ہے جس پر چھ امریکی فوجیوں کے علاوہ دو نیپالی فوجی بھی سوار تھے۔
ادھر امدادی حکام کا کہنا ہے کہ وہ تاحال منگل کو آنے والے زلزلے سے ہونے والے نقصانات کا صحیح اندازہ لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
نیپال ابھی پہلے زلزلے سے سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ دوسرے زلزلے نے آ لیا
نیپال کے جنوب مشرقی علاقے میں نامچے بازار کے قریب منگل کو سات اعشاریہ تین شدت کا زلزلہ آیا تھا جس کے اثرات بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی تک محسوس کیے گئے تھے۔
بدھ کی صبح امدادی کارکنوں نے دوبارہ ایسے افراد کی تلاش شروع کی ہے جو منہدم ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بھی درجنوں افراد ملبے تلے دبے ہو سکتے ہیں۔
نیپال کے ہزاروں باشندوں نے زلزلے کے خوف سے رات کھلے آسمان کے نیچےگزاری جبکہ بہت سے لوگ گذشتہ زلزلے کے بعد گھر ہی نہیں لوٹے ہیں۔
نیپال پہلے ہی 25 اپریل کو آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے جس میں تقریباً آٹھ ہزار افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔
ہزاروں افراد نے رات کھلے آسمان کے نیچے عارضی آشیانے میں گزاری
نیپالی حکام کے مطابق منگل کو آنے والے زلزلے نے ملک کے 75 اضلاع میں سے 31 کو متاثر کیا ہے۔
ابتدا میں نیپال میں دارالحکومت کھٹمنڈو کے مشرقی اضلاع دولکھ سندھو پل چوک کو سب سے زیادہ متاثر علاقہ کہا گيا اور حکام نے وہاں 26 اموات کی تصدیق کی ہے جن میں سے 20 چری کوٹ قصبے میں ہوئی ہے۔
تاہم ابھی بھی ہلاکتوں اور نقصانات کی تصویر واضح نہیں ہے۔
زخمیوں کا علاج بھی کھلے آسمان کے نیچے جاری ہے
نیپال کے وزیر داخلہ بام دیو گوتم نے کہا: دولکھ میں بہت سے گھر زمیں بوس ہو گئے ہیں۔۔۔ یہاں ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
جرمنی کی ایک امدادی کارکن ریجن کوپلو نے کہا: میں نے ایک خاتون کو سامنے والی عمارت کی تیسری منزل سے کودتے ہوئے دیکھا۔ اس کے پاؤں، کہنی اور ہاتھ میں چوٹ آئی ہے۔
انھوں نے مزید بتایا: لوگ گھر کے باہر ہی رہے، زمین ہلتی رہی۔ بعض لوگ آہ و بکا کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو گلے لگا رہے تھے۔
بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق زلزلے سے نیپال سے ملحقہ بھارتی علاقوں میں بھی 17 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ان میں سے 16 اموات ریاست بہار میں اور ایک اترپردیش میں ہوئی۔ چین نے بھی تبت میں ایک موت کی تصدیق کی ہے۔
امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق منگل کو آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.3 تھی اور اس کا مرکز كٹھمنڈو سے 83 کلومیٹر مشرق میں ماؤنٹ ایورسٹ کے نزدیک واقع نامچے بازار نامی قصبہ تھا۔
زلزلہ مقامی وقت کے مطابق دوپہر 12:35 پر آیا اور اس کے جھٹکے بنگلہ دیش کے علاوہ بھارت کی مشرقی ریاستوں اور دارالحکومت دہلی تک محسوس کیے گئے۔
امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق گذشتہ زلزلے کی طرح منگل کے زلزلے کا مرکز بھی زمین میں صرف 15 کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔
12:35 کے پہلے بڑے جھٹکے کے تقریباً 30 منٹ بعد 6.3 شدت کا ایک اور بڑا جھٹکا بھی محسوس کیا گیا جس کا مرکز کھٹمنڈو کے مشرق میں رامی چھپ کا علاقہ تھا۔ اس کے بعد بھی مزید چار جھٹکے آئے۔
کھٹمنڈو میں بی بی سی کے نامہ نگار سائمن کوکس کا کہنا ہے کہ ’یہ زلزلہ بہت شدید تھا اور تقریباً 25 سیکنڈوں تک محسوس کیا گیا۔ زمین ہل رہی تھی، پرندوں نے شور مچانا شروع کر دیا اور عمارتیں ہلنے لگی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد آنے والے جھٹکوں نے لوگوں کو دہلا کر رکھ دیا اور وہ رونے اور چلانے لگے۔
زلزلے کے وقت بی بی سی کی نامہ نگار یوگیتا لیمائے ایک امدادی ٹیم کے ہمراہ نیپال کے پہاڑوں میں تھیں۔ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’ہم لوگ محفوظ ہیں۔ ہم نے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے اور یہ جھٹکے خاصی دیر تک جاری رہے۔ ہم نے قریب ہی پہاڑوں سے اٹھتی ہوئی گرد اور پتھر بھی لڑھکتے ہوئے دیکھے۔‘
بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ ’زمین بہت دیر تک ہلتی رہی۔‘
’ہم گذشتہ دنوں میں کئی مرتبہ جھٹکے دیکھتے رہے ہیں۔ اب پہلا زلزلہ آئے ہوئے ڈھائی ہفتے گزر چکے ہیں، لیکن یہ جھٹکا بہت طویل تھا۔ لوگ بہت خوفزدہ ہو گئے ہیں۔‘